حالیہ دنوں میں بلوچستان یونیورسٹی میں ایک دل خراش واقعے نے ایک دم سب کو حیرت میں ڈال کر یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں وہاں ایک تو لوگ مظلوموں اور محکوموں جیسی زندگی گزار رہے ہیں اور ہم اسی معاشرے کی اور اس سرزمین کی اور اس میں بسنے والے اقوام کی عزت و آبرو کی تعریف کرتے نہیں تکتے ہیں. آج اس معاشرے کے ایسے ادارے میں جسکا مقصد مفلوج ذہنوں کو آبیار کرنا ہے ایسے واقعے پیش آ رہے ہیں کہ جن پر نا یقین کرنے کو دل کرتا ہے اور نہیں تصور کرنے کو. طالبعلم جس امید سے کوسوں دور اپنی علمی پیاس بجھانے کو آتے ہیں وہاں ایک تو بندوق کے زور پر ہمیں انسانیت نہیں انفرادیت سکھائی جاتی ہے اور دوسرا مہذب دنیا کا سبق پڑھا کر غیر مہذب بنایا جاتا ہے ہم تعلیم نہیں دہشت گردوں کے بیچ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ہے
اب جب کہ ہم نے ضمیر بیچ ڈالے لیکن ہم پھر بھی عزت و ناموس کے نام نہاد دعویدار بنے پھرتے ہیں
ہم میں غلامی کے آثار پائے جانے لگے ہے. ہمیں خوف میں مبتلا کر کے ذہنی آزادی کے تصور سے غافل کردیا گیا. اس ادارے کا واحد مقصد پڑھنے والوں کو ایک کاغذ ( ڈگری) ہاتھ میں تھما کر رخصت کر دینا ہے. جو کہ آپ کو نوکری دلوانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے لیکن آپ کو انسان و انسانیت کے لیے مثبت کردار بنانے میں مفید ثابت نہیں ہو سکتا
جن کو قوم کا محسن و محافظ قرار دیکر ہم پر مسلط کر دیا گیا ہے. وہی مسئلے کی جڑ ہیں. اگر ہم ماضی کی طرف نگاہیں پھیر کر دیکھیں تو اس وقت کے اور اب کے تعلیمی اداروں میں زمین وآسمان کا فرق نظر آتا ہے. اگر تب کی بات کی جائے تو ان اداروں میں جہاں آج چھاؤنیاں قائم ہیں یہاں ذہنوں میں علم کے سر چشمے پھلتے پھولتے تھے. اور لوگ ایک عزم لئے عالمِ نو سے مقابلے کے لیے کوشاں رہتے تھے ،آج ان کا نام و نشان تک تہس نہس کر دیا گیا ہے. اور ان کو کال کوٹڑیوں کو سونپ کر ہمیشہ کے لیے انکا وجود مٹا دیا گیا ہے
اس سے پیشتر ہم نے دیکھا کہ کئی قسم کے وردی بدلے گئے ،کئی نام تشکیل دیے گئے ،کئی معاہدے قرار دیے گئے ،کمیٹیاں قائم کی گئی جو کہ صرف اور صرف اس مسلئہ کو اجاگر کرنے والے قوم کے ان بہادر بیٹیوں و بیٹوں کو جھوٹی تسلیاں دے کر اس مسئلے سے دستبردار کرانے کی کوششوں کے علاوہ اور کچھ نہیں ہیں
واقعات ان گنت ہیں جن پر کتابیں بھر دی جا سکتی ہیں لیکن اس وقت جس غیر قانونی،غیر اخلاقی،غیر رسمی فعل سے بلوچ ،پشتون ہزارہ یا دوسرے جتنے آباد اقوام کی عزت و ناموس کی دھجیاں بکھیر دی گئی ہیں وہ ناقابلِ فراموش ہے
یونیفارم بدلنے سے اصل مسئلے کو آنکھوں سے اوجھل کرنا ہے یونیورسٹی میں جنسی ہراسگی کے واقعے میں ملوث تمام افراد کو کیفرِ کردار تک پہنچانا چایئے بظاہر ابھی تک اس مسئلے پر کچھ نظر ثانی نہیں کی گئی ہے اور نہ کہ مستقبل قریب میں ممکن ہے
میں سلام پیش کرتا ہوں ان تمام طلبہ و طالبات کو خواہ وہ بلوچ ہو ،پشتون، ہزارہ یا کوئی اور انکا متحد ہونا ہی مثبت ثابت ہوگا اور قوم کو ایک عہد کرنا ہوگا کہ جب تک ان مجرموں کو سزا نہیں دی جاتی ہم چین کی سانس بھی نہیں لینگے اور اپنے اداروں میں اپنے قول و فعل کی مکمل آزادی چاہتے ہیں

Baloch Students Action Committee is a Student political organization that aims to work for the betterment of Education in Balochistan and politicizing the youth