تعلیم اور بلوچستان
تعلیم ایک ایسی چیز ہے جو ایک انسان کو حقیقی معنوں میں انسان بنا دیتا ہے، جو انسان کے لاشعور میں شعور بیدار کرکے انسان کو جستجو کے راہ پر گامزن کرتا ہے جہاں سے انسان اپنے ارد گرد وقوع پزیر محرکات کا جائزہ لینا سیکھ جاتا ہے ، انسان اس کائنات کے بے شمار رازوں سے پردہ اٹھاتا ہے، انسان انفرادیت و اجتماعیت پر اثر انداز ہونے والے عوامل کو شعوری طور پر پرکھنے کے قابل بن جاتا ہے اور اپنے سیاسی ، سماجی ، و معاشرتی حالات کا سائنسی بنیادوں پر تجزیہ کرکے اپنے اور اپنے سماج کیلئے بہتر سے بہتر فیصلے کرنے کے قابل بن جاتا ہے
بدقسمتی سے صوبہ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے اس ملک میں سرفہرست ہے تو پسماندگی میں بھی سرفہرست ہے اور شرح خواندگی میں اس کا نمبر سب سے آخر میں آجاتا ہے ایک صوبہ جسے ہر لحاظ سے پسماندہ رکھا گیا ہے یہاں ذہنی نشونما پر اور سیاسی سوچ پر ایک جمود طاری ہے ، یہاں حکومتیں اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہیں ، یہاں جس سمت نظر ڈالی جائے مسائل سے گھرا ہوا ایک لاچار و بے بس سماج نظر آنے لگتا ہے اس دور جدید میں جہاں دنیا ایک گلوبل ولیج کی شکل اختیار کرچکی ہے لیکن بلوچستان میں اس اکیسویں صدی میں بھی زچگی سے اموات واقع ہورہے ہیں ، دور دراز علاقوں کے لوگ بجا خود صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں بھی ہسپتالوں کی حالت انتہائی مخدوش ہے ، تعلیمی ماحول پر اک نظر ہو تو کہنے کو گزشتہ کچھ عرصے سے یہاں تعلیمی ایمرجنسی نافذ تو ہے لیکن تعلیمی اداروں کی اور طلباء و طالبات کے مسائل حل ہونے کے بجائے ان میں مزید اضافہ ہوا ہے ، پرائمری سطح پر تعلیمی ادارے غیر فعال ہیں یا انکی فعالیت کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں دے رہا ، پورے صوبے کے کالجز میں اساتذہ کی کمی، کلاسز کا نہ ہونا ایک بھانک شکل اختیار کرچکی ہے جسکی وجہ سے مجبورا طلباء کو مستقبل کے چیلنجز سے مقابلہ کرنے کیلئے پائی پائی جوڑ کر سب سے بڑے شہر کوئٹہ کا رخ کرنا پڑتا ہے جہاں کوئی سرکاری ہاسٹل موجود نہیں طلباء و طالبات انتہائی نا مناسب حالات میں پرائیوٹ ہاسٹلوں میں رہائش اختیار کرنے پر مجبور ہیں دن رات ایک کرکے جب یہی طلباء و طالبات کسی بھی شعبے میں تعلیم حاصل کرنے کیلئے اعلی تعلیمی اداروں میں پہنچ جاتے ہیں گویا مسائل وہاں پہلے سے ہی انکا انتظار کررہے ہوں روزانہ کی بنیاد پر طلباء و طالبات کہیں جنسی ہراسگی کے مدعا لیکر سڑکوں پر احتجاج کرتے نظر آتے ہیں تو کبھی ہاسٹل کے مسائل پر نوحہ کناں نظر آتے ہیں ، کہیں سہولیات کے فقدان کا رونا رورہے ہوتے ہیں تو کہیں آئے روز یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے جاری نئے نئے احکامات سے گویا طلباء ذہنی مریض بن چکے ہیں ایسے میں حکومت کی عدم توجہی زخم پر نمک پاشی کا کام کرتی ہے یہی طلباء جب اعلی تعلیم حاصل کرکے فارغ ہوتے ہیں تو سماجی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ حکومتی نااہلی کا بوجھ بھی ان کے ہی سر پڑتا ہے
ایسے میں بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی نے اپنے ناتوں کندھوں پر ایک بھاری بوجھ اٹھا کر تعلیمی اداروں میں طلباء و طالبات کو درپیش مسائل کو حل کرنے کے ساتھ ساتھ طلباء میں سماجی ، سیاسی و معاشرتی مسائل پر شعور کی بیداری کیلئے دن رات کوشاں ہیں ، تمام طلباء و طالبات جو بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی سے وابستہ ہیں یا نہیں ان پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنے لوگوں کو علم کی شمع سے روشناس کرنے کیلئے جدوجہد کریں
بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کو اپنے ذمہ داریوں کا احساس ہے اور وہ ان ذمہ داریوں کو پورا کرنے کیلئے بھرپور کوشش کر رہی ہے یہی وجہ ہے کہ آج بلوچ طلباء کی تمام تر امیدیں بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی سے ہی وابستہ ہیں

Baloch Students Action Committee is a Student political organization that aims to work for the betterment of Education in Balochistan and politicizing the youth