پریس کانفرنس
07/12/2019
معزز صحافی حضرات!
ہم آپکے انتہائی مشکور و ممنون ہے کہ آپ نے اپنی قیمتی وقت سے کچھ وقت ہمیں دی، ہمارے اس پریس کانفرنس کا مقصد خضدار کے تعلیمی اداروں کو درپیش مسائل کے حوالے آپ کو بریف کرنا ہے تاکہ یہ مسلئہ صیح طور پر اجاگر ہو اور ہمارے حکمرانوں کو پتہ چل جائیں کہ تعلیمی ایمرجنسی کے نعروں کو عملی شکل دینے کا وقت قریب آ پہنچا ہے۔
اور ہم آپ ہی کے تعاون اور مدد سے ان حقیقی اور بنیادی مسائل کو حکام بالا کے ایوانوں تک پہچانا چاہتے ہیں۔جیسا کہ آپ سب کو معلوم ہے کہ خضدار صوبے کا دوسرا بڑا شہر ہے لیکن بدقسمتی سے پچھلے دس سالوں سے خضدار کی حالت انتہائی خراب رہی ہے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ ان حالات کی وجہ سے یہاں بہت سے مسائل درپیش ہیں اور خاص کر ایجوکیشن کے شعبے میں۔ ہماری شروع دن سے ہی یہی کوشش اور جدوجہد رہی ہے کہ ہر فورم ہر علاقے کے تعلیمی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں اور حکام بالا تک اپنی آواز پہنچائیں لیکن اس کیلئے آپ صحافی حضرات کا بہت بڑا کردار ہےاور رہا ہے ۔
معززصحافی حضرات
جس طرح آپ کو معلوم ہے کہ بلوچستان میں 2013 سے لے کر آج تک تعلیمی ایمرجنسی نافذ ہے لیکن افسوس کہ ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ تعلیمی ایمرجنسی نعروں کے علاؤہ کچھ بھی نہیں ہے اسی لیے
بلوچستان کے تعلیمی ادارے مسائل کےگڑھ بن چکے ہیں ، خضدار جیسا صوبے کا دوسرا بڑا شہر جہاں تقریبا تمام بڑے تعلیمی ادارے موجود ہیں انجیئرنگ یونیورسٹی سے لے کر جھالاوان میڈیکل کالج ، سردار بہادر خان وومن یونیورسٹی کیمپس، شہید سکندر یونیورسٹی ، بلوچستان ریزیڈنشل کالج جیسے ادارے موجود ہیں ۔لیکن یہ تمام تعلیمی ادارے بنیادی سہولیات سے محروم ہیں ۔اگر ہم انجیئرنگ یونیورسٹی کی طرف نظر دوڑائیں تو 1994 کو اسےانجئیرنگ یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا لیکن آج بھی صرف چھ ڈیپارٹمنٹس کے ساتھ چل رہی ہے اور پورے بلوچستان میں دو کیمپسز صرف منظور ہوئے ہیں لیکن ترقیاتی کام نہ ہونے کے برابر ہے ۔ خضدار انجینئیرنگ یونیورسٹی کے تمام فیکلٹی اسٹاف میں ممبر کی کمی ہے اور یونیورسٹی میں ہر سال فیسیں بڑھائی جاتی ہے جس کی وجہ سے پسماندہ علاقوں کے طلبہ اپنی کیئریر کو جاری نہیں رکھ سکتے اور بہت سے مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔
صحافی حضرات :
شہید سکندر یونیورسٹی کی منظوری کو سالوں کا عرصہ گزر گیا ہے لیکن تاحال فنکشنل نہیں ہے۔ اس پورے ریجن میں کوئی یونیورسٹی نہیں ہے یہی ایک شہید سکندر یونیورسٹی ہے کہ جو اس ریجن کے تمام تعلیمی پسماندگی میں کردار ادا کر سکتی ہے لیکن ضلعی انتظامیہ اور صوبائی گورنمنٹ کی جانب سے توجہ نہیں دی جا رہی ہے ۔
جھالاوان میڈیکل کالج اساتذہ کی کمی کا شکار ہے اور اس کےساتھ لیبارٹریز وغیرہ بھی پورے نہیں ہے حالیہ کچھ وقت جھالاوان میڈیکل کالج کے طلبہ و طالبات نے بھی بنیادی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے احتجاجی مظاہرہ بھی کیے ۔بوائزڈگری کالج و گرلز ڈگری کالج خضدار میں سائنس مضامین کے اساتذہ تک موجود نہیں ہیں۔ بوائز ڈگری کالج ہاسٹل کی کمی کا شکار ہے اور انٹر کالج وڈھ کے تعمیرات عرصہ ہونے کو ہے اب تک تکمیل تک نہیں پہنچ سکا۔ انٹر کالج نال اساتذہ و کلاس رومز کی کمی کا شکار ہے اور انٹر کالج زہری سائنس اساتذہ کی کمی کا شکار ہے۔ اسی طرح خضدار کے مضافات میں موجود اسکول اساتذہ کی غیر حاضری کا شکار ہیں ۔
صحافی حضرات :
ان تمام مسائل کو مد نظر رکھ کر یہ کہنے میں حق بجانب ہونگے کہ صوبائی گورنمنٹ کے ترجیحات میں تعلیم جیسے ادارے نہیں ہیں اور تعلیمی ایمرجنسی صرف نام کی حد تک موجودہ ہے کیونکہ اگر واقعی میں صوبائی گورنمنٹ اور ضلعی انتظامیہ تعلیمی جیسے ادارے کے حوالے سے سنجیدہ ہوتے تو اتنے بڑے مسائل کب حل کیے جا چکے ہوتے لیکن تعلیمی ایمرجنسی کو سات سال گزرنے کے باوجود مسائل جوں کے توں آج بھی موجود ہے لہذا ہم آپ صحافیوں کے اور پریس کانفرنس کے توسط سے ضلعی انتظامیہ اور صوبائی گورنمنٹ کو بتانا چاہتے ہیں کہ وہ تعلیمی ایمرجنسی کو صرف کاغذات کی زینت نہ بنائے بلکہ صیح طور پر تعلیم کے میدان میں انقلاب لائیں۔

Baloch Students Action Committee is a Student political organization that aims to work for the betterment of Education in Balochistan and politicizing the youth