بلوچ اسٹوڈںٹس ایکشن کمیٹی حیدرآباد زون کا اسٹڈی سرکل زیر صدارت زونل صدر اقبال بلوچ منعقد ہوا ۔ اسٹڈی سرکل کا عنوان ” نیشنلزم ” تھا جبکہ اسپیکر مرکزی وائس چیئرمین شبیر بلوچ تھے۔
شبیر بلوچ نے اپنے لیکچر کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ مختلف دور میں مختلف اسکالرز نے نیشنلزم کی مختلف تعریف دی ہیں.
قوم دوستی کا تصور سترھوی صدی میں ابھرے جب بڑے بڑے سلطنت تقسیم کا شکار ہوکر کئی حصوں میں بکھر گئے اور ہر اک قوم دوسرے قوم سے کئی وجوہات کے بناء پر الگ ہوئے تو قومی تشخص پاکر ایک الگ ریاست بنانے کی جہد کی ۔ان انقلابات میں فرانس اور امریکہ کی انقلابِی تحریکیں قابل زکر ہیں. جہاں سے نئی امنگوں کا ابھار ہوا اور نئی نظریات اور خیالات دنیا کے سامنے آئی اور عوام کو حکمتوں کے طاقت کو چیلنج کرنے کا ایک موقع ملا۔ان ابھرنے والے نظریات میں سب سے اہم نظریہ قوم پرستی کا تھا جس نے بعد ازاں نئی شکل اختیار کی اور ایک غالب سوچ کے ساتھ دنیا میں ایک اکثریت نظریہ کے بطور خود کو آگے لایا اور بہت سی قوموں کی جہدِ نظریہ بن گیا۔
کسی بھی قوم کے لِئے جغرافیہ ،حدوحدود ،سرزمین اور قومی نظریہ اہمیت کے حامل ہوتے ہے اسطرح اس قوم کے قومی ہیرو، قومی زبان، تاریخ و تہذیب سمیت دیگر ان گنت عناصر بھی ہے جو ہر قوم کی نشان کی طور پر ظاہر ہوتے ہے۔اسطرح بلوچ قوم کا زکر کیا جائے تو بلوچ قوم کی بحثیت نشان یہ تمام عناصر موجود ہے۔ اگر سب سے پہلے تاریخ کا زکر کیا جائے تو بلوچ قوم کی تاریخی خدوخالیں ہمیں مہرگڑھ کی تاریخی تہذیب سے بھی قبل ملتے ہے۔اگر غور کیا جائے تو خود مہرگڑھ فرانسیسی ماہر آثار قدیمہ کے مطابق ١١،٠٠٠ ہزار قبل وجود رکھتا تھا اس کی تہذیبی نقوش آج بھی اپنے جگہ پر موجود ہے جس پر مزید ریسرچ کرنے کی ضرورت ہے قومی جغرافیہ اور آب ہوا کو دیکھے تو یہ ہی وہ وجہ ظاہر ہوتی ہے کہ بیرونی حملہ آوروں نے بلوچ سرزمین پر حملے درحملے کیئے اور سرزمین ہمیشہ قابضین کا میدان بنا رہا ہے بلند و بالد پہاڑیں ، بے آب و گیاب صحرائیں، گرم سمندر بیک وقت گرم و سرد موسم جس سے ہر قسم کے غذا بلوچ سرزمیں میں میسر ہوتی ہیں اور اس کے ساتھ ایک گیٹ وے کی حیثیت ہی اس بات پر قائل کرتی ہے کہ ہر دور کی نظریں بلوچ سرزمین پر تھی۔ پرتگیزوں ، آرین ، سکندر اعظم سے لیکر تمام قابضین نے بلوچستان پر حملہ کیا۔ بلوچ قوم کی زبانوں کو اگر دیکھا جائے تو ہر اک زبان جو بلوچستان میں بولی جاتی ہے وہ بلوچ قوم کی زبانیں کہلاتی ہے اسطرح قومی مجسمہ بھی قوم دوستی میں اہم کردار ادا کرتے ہے ،بلوچ سرزمیں میں “میری قلات ،امید کی پری ،مہرگڑھ ، وادی, بولان,پیر غیب اور چلتن سمیت دیگر شامل ہے.
سب سے آخر میں دیکھا جائے تو بلوچ شاعری ،، میرے خیال میں بلوچ تاریخی پہلو کو اجاگر کرنے میں بلوچ شاعری نے سب سے اہم کردار ادا کیا ہے کیونکہ مختلف تاریخ دان نے اپنی تاریخی حوالہ جات قدیم شاعری سے اخذ کیئے ہیں اور یہ سلسلہ تا ہنوز جاری ہے۔بلوچی رزمیہ شاعری کا زکر کیا جائے یا عشقیہ شعر و شاعری کا زکر ہو ان سب نے دیگر شاعری زرائع سے مل کر بلوچ قوم کی تاریخ تشکیل دی ہے۔
ان تمام عناصر کے علاوہ دیگر بہت سی چیزیں ہے جنہوں نے بلوچ قوم دوستی کی تشکیل میں موثر کردار ادا کیا ہے ان میں بلوچ قومی جنگیں ، تاریخی شخصیت ، دیومالائی قصہ ، بلوچ آرکیالوجی سمیت دیگر شامل ہے
بلوچ سرزمین ایک خوبصورت اور معدنی وسائل سے مالا مال ایک ایسا خطہ ہے جہاں ایسے قدرتی مناظر ہیں جو شاید دیگر کسی خطے میں پائے جاتے ہے۔اگر ان حقیقی پہلو کو اجاگر کیا جائے تو یہاں بلوچ لٹریچر کی کمزوری نظر آتے ہے کیونکہ ایسے حسین مناظر پر لاتعداد ناول لکھی جاسکتے ہے اسکے آثار قدیمہ کے ایسے نشانات موجود ہے جن پر تحقیق کی ضرورت ہے مگر اب تک کوئی تحقیق نہیں کی گئی ہر چند کلومیٹر کے بعد بہت سے تاریخی اور قدرتی منظر موجود ہے جن پر تحقیق کرنا نوجوانوں پر فرض ہے۔
اسپیکر نے اپنے آخر میں کہا کہ آج دانستہ طور پر بلوچ قوم کو تقسیم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ آج بلوچ نیشنلزم کو مختلف طریقوں سے تقسیم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جہاں زبانوں کی بنیاد پر مقتدرہ قوتوں کی جانب سے براہوی ، کھیتراڑیں اور دیگر زبانوں کو الگ قوم قرار دینے کی جہد کی جارہی ہے تو وہاں دیگر زرائع کو استمعال کرتے ہوئے روز بروز نئے سودساختہ تہذیبی اشیاء کو ایک نئی رنگ دیا جارہا ہے تو بحثیت نیشلسٹ طلباء تنظیم ہماری یہ زمہ داری بنتی ہے کہ ہم ان چیزوں کو عوام کے سامنے آشکار کریں اور ان خودساختہ تضاد کو ختم کرنے کی کوشش کرنے کی ہمہ وقت کوشش کریں۔

Baloch Students Action Committee is a Student political organization that aims to work for the betterment of Education in Balochistan and politicizing the youth