بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی ڈگری کالج یونٹ کی جانب سے پروگرام باعنوان ” بلوچستان کی جیوگرافی اور بلوچ شناخت” کا انعقاد کیا گیا. پروگرام کے پہلے حصے میں لکچر پروگرام رکھا گیا اور دوسرے حصے میں میوزیکل پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔
پروگرام کا آغاز بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی ڈگری یونٹ کے صدر نے اپنے خطاب سے کیا اور ساتھ میں پروگرام میں شرکت کرنے والے تمام مہمانانءِ خاص شرکت کرنے کا شکریہ ادا کیا. پروگرام میں پروفیسر منظور بلوچ, پروفیسر آصف بلوچ اور مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل خالدبلوچ نے بطور مہمان خاص شرکت کی اور شرکا کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کیا.
پروفیسر منظور بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے یہاں بلوچ کو معلوم ہی نہیں کہ ہمارے اوپر کیسے ظالم کے بادل منڈلائے جا رہے ہیں. بلوچ قوم کے مفادپرست ٹولہ جات نے ایسے ناگہانی حالات میں اپنے شناخت اور جیوگرافی کی اہمیت کو چھوڑ کر چند لالچ اور مراعات کی خاطر اپنے ذات کو سنوارا ہے. بلوچستان کی اسٹریٹیجک اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ آنے والی تمام نسلوں کےلیے کافی ہوں مگر اس اہمیت سے ناآشنا بلوچ قوم نے مالک ہونے کا خیال چھوڑ کے کٹورا ہاتھ میں لیا ہے.
انہوں نے کہا بلوچ قوم نے خود اپنے آپ کو نقصان دیا ہے. چند لوگوں نے قومیت کا دعویٰ کرکے بلوچ قوم کو بھکاری بنا کہ رکھ دیا. کچھ پارٹی چند ٹکے کے اسکیموں کی خاطر اپنی اصل ملکیت سے دستبردار ہو گئے ہیں. بلوچ قوم اپنی گنتی نہیں جانتی کہ وہ کس چیز کا مالک ہے. ہماری المیہ یہ ہے کہ ہم پی ڈی ایم سے اتحاد کرکے بیٹھ سکتے ہیں مگر اپنے قوم کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں. ہر کوئی اپنا ایک دو انچ کا مسجد بنا کر قوم کو گمراہ کرنے کی باگ دوڑ میں ہیں.
انہوں نے کہا کہ ہمارے آباؤ اجداد نے ہمیں یہ سرزمین سگار کے نوک پہ حاصل کرکے منظم کیا مگر ابھی بلوچستان کتنی ٹکروں میں بٹا ہوا ہے ہمیں ہوش تک نہیں. ہماری قوم شوبازی اور دکھاوے میں پہل ہے مگر حقیقی بنیاد پہ اس سرزمین کے لئے جدوجہد کرنے میں پیچھے رہ گیا ہے. مہاجرین کی آبادکاری جو سوچی سمجھی سازش کے تحت کیا جارہا ہے اس میں کچھ پارٹیاں خرگوش کی نیند سو رہے ہیں.
انہوں نے مذاکرات کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر مالک کہتا ہے کہ میں نے بلوچوں کا منایا تھا مگر بعد میں مذاکرات عمل میں نہیں لایا گیا. وہ بجائے بلوچ اور بلوچستان کی دفاع کے بیچنے کے پیچھے ہے. قوم کی اصل مسئلہ کو لینے کے بجائے اپنے آپ کی صفائی پیش کر رہا ہے. دوسری جانب اختر مینگل کہ رہا ہے کہ ہمیں ناراض بلوچ کی ڈیفینیشن بتاؤ. ہم بھی ناراض ہیں. یہ ساری اپنے صفائی اور زاتی دفاع کے لئے پوری قوم کو گمراہ کر رہے ہیں. یہاں کوئی ناراض نہیں جو چند مراعات کے نام مذاکرات کریں گے. یہاں ہماری قومی پہچان کا مسئلہ ہے جیوگرافی کا مسئلہ ہے. مگر کچھ لوگ قوم کے ساتھ کھیل رہے ہیں.
انہوں نے آخر میں کہا کہ ساری ذمہ داری اب بلوچ نوجوانوں کے اوپر ہے. ابھی اگر قوم نے ھوش نہیں کیا تو آنے والی نسل ہم پہ لعنت بھیجے گی. اب وقت ہے کہ بلوچ قوم فیصلہ کرے. نوجوان نسل کو ہی قوم کو اس دلدل سے نکالنا ہوگا. نوجوانوں کو سائینسی اور علمی طریقے سے جہد کو آگے لے جانا ہوگا. کتاب و قلم سے حقیقی معنوں میں استعمال کرنا ہوگا. بلوچستان کی کہانی کو لکھ کہ بلوچ اور دنیا کو دکھانا ہو گا.
سنگت خالد نے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بیج انگریز نے بویا تھا تھا جو اب ابھی ہماری اندر اتنا پھیلا ہوا ہے کہ ہم اپنی اصل شناخت کو بھول گئے ہیں. ہماری تاریخ کو مسخ کردیا گیا ہے اور ہم اسی مسخ شدہ تاریخ کو اپنائے تذبذب کا شکار ہیں. ہماری تاریخ کو حقیقی تحقیق کی ضرورت ہے. ہم نے اپنی شناخت کو چھوڑ کہ دوسرے کی دی ہوئی شناخت کو اپنایا ہوا ہے. اگر کوئی بلوچ اپنی سرزمین سے حقیقی محبت کرتا ہے تو اپنی قوم کی کمزوریوں کو دیکھ کے انہیں حل کرنا ہوگا. سب چھوڑ کہ بلوچ اور بلوچستان کے بارے میں سوچنے کا وقت ہے. ابھی بھی اگر ہم اپنے ذمہ داریوں سے بھاگیں گے تو ہماری نام و نشان مٹ جائے گا.
سامعین سے بات کرتے ہوئے پروفیسر آصف بلوچ نے کہا کہ ایک جانور کو زندہ رہنے کے لئے ایک زمین کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح ایک قوم کو زندہ رہنے کے لئے ایک زمین کی ضرورت ہے. ہمارے پاس زمین تو ہے مگر اتنی ٹکڑوں میں بانٹ کے رکھ دیا ہے کہ ہماری شناخت مٹ رہا ہے. جب تک کسی قوم کو رہنے کے لئے زمین نہ ہو تو اس کی شناخت خطرہ میں پڑ جاتی ہے. ابھی بھی قوم کے پاس وقت ہے کہ اپنی شناخت کو بچائے اور سرزمین حاصل کریں.
پروگرام کے آخری حصے میں ساز و زیملی مراگش کا انعقاد کیا گیا جس میں نوجوان گلوکار شاہ سمال اور اس کے ساتھیوں نے اپنے خوبصورت آواز سے دیوان کو رونق بجشا. جس کے بعد ڈگری کالج یونٹ کے زمہ داروں نے تمام شرکا کا شکریہ ادا اور دیوان کے اختتام کیا.

Baloch Students Action Committee is a Student political organization that aims to work for the betterment of Education in Balochistan and politicizing the youth