• Latest
  • Trending
مغالطے اور مبالغے

مغالطے اور مبالغے

April 20, 2022
بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی حیدر آباد زون کا جنرل باڈی اجلاس منعقداقبال بلوچ زونل صدر، شیراز شکیل جنرل سیکرٹری منتخب

پنجاب یونیورسٹی لاہور کے طالبعلموں پر تشدد اور غازی یونیورسٹی ڈی جی خان کے طالبعلموں کی مسلسل ہراسگی نہایت ہی تشویشناک ہے۔

April 28, 2022
بلوچ تاریخ کی قدیم شخصیات

بلوچ تاریخ کی قدیم شخصیات

April 20, 2022
تنظیم کاری ٹی سائنسی وڑٹ کاریم نا گرج

تنظیم کاری ٹی سائنسی وڑٹ کاریم نا گرج

March 22, 2022
ادب اٹ نظریہ نا  خواست

ادب اٹ نظریہ نا خواست

March 19, 2022
شونداری(ترقی) نا تصور نوآبادیاتی رد اٹ

شونداری(ترقی) نا تصور نوآبادیاتی رد اٹ

March 18, 2022
شرگِداری

شرگِداری

March 11, 2022
گوں گسن کنپانیءَ گُلگدارے

گوں گسن کنپانیءَ گُلگدارے

March 10, 2022
دود ءُ ربیدگ: بے چاڑیءِ سپر

دود ءُ ربیدگ: بے چاڑیءِ سپر

March 8, 2022
میشل فوکو: تاکت ءُزانت

میشل فوکو: تاکت ءُزانت

March 5, 2022

نوشت تاک ءِ ارزشت ءِ سرا چمشانکے ۔

March 1, 2022
On Ethnicity And History Of Dera Ghazi Khan | Dr Arshad Leghari

On Ethnicity And History Of Dera Ghazi Khan | Dr Arshad Leghari

February 27, 2022
Theorizing Postcolonial Nationalism: A Case of “Domain” Theorizing

Theorizing Postcolonial Nationalism: A Case of “Domain” Theorizing

February 25, 2022
Advertisement
No Result
View All Result
  • HOME
  • EDITORIAL
  • REPORT
  • ARTICLES
    • All
    • BALOCHI
    • BRAVI
    • ENGLISH
    • URDU
    تنظیم کاری ٹی سائنسی وڑٹ کاریم نا گرج

    تنظیم کاری ٹی سائنسی وڑٹ کاریم نا گرج

    ادب اٹ نظریہ نا  خواست

    ادب اٹ نظریہ نا خواست

    شونداری(ترقی) نا تصور نوآبادیاتی رد اٹ

    شونداری(ترقی) نا تصور نوآبادیاتی رد اٹ

    شرگِداری

    شرگِداری

    گوں گسن کنپانیءَ گُلگدارے

    گوں گسن کنپانیءَ گُلگدارے

    دود ءُ ربیدگ: بے چاڑیءِ سپر

    دود ءُ ربیدگ: بے چاڑیءِ سپر

    • URDU
    • ENGLISH
    • BALOCHI
  • STATEMENT
  • BOOK REVIEW
  • INTERVIEW
  • NIVISHT MAGAZINE
  • BOOK
  • GALLERY
  • CONTACT
BALOCHSTUDENTACTIONCOMMITTEE
No Result
View All Result

مغالطے اور مبالغے

by bsac_admin
April 20, 2022
in BOOK REVIEW
0
مغالطے اور مبالغے

کتاب:۔ مغالطے اور مبالغے
مصنف:۔ مبارک حیدر
چمشانک :۔ظہیر بلوچ

کتاب مغالطے اور مبالغے پروفیسر مبارک حیدر کی تصنیف ہے. جسے سانجھ پبلکشرز نے لاہور سے شائع کیا. اس کتاب میں اسلامی معاشرہ اور خاص کر پاکستانی معاشرے میں پھیلنے والی غلط فہمیاں اور کم علمی کا ذکر کیا گیا ہے جبکہ حقیقت کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے والے کرداروں اور ان کے مفادات کو بھی بیان کیا گیا ہے.
مصنف کہتے ہیں مبالغہ کسی چیز کو اسکے اصل سے بڑھا کر پیش کرنے کا نام ہے جبکہ مغالطہ کم علمی اور غلط فہمی کا نام ہے. مبالغہ اور مغالطہ ایک انسان کو تجزئیہ، خود تنقیدی اور خود احتسابی سے دور رکھ کر محض تعصب اور نفرت کا درس دیتے ہیں. انسان سماج کا ایک خود شناس اکائی ہے جو اپنے کمزوریوں اور کوتاہیوں کا ادراک کرکے انکے سدباب کی کوشش کرتا ہے. اسی آموزشی عمل سے گزر کر اپنے سماج کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوششوں کو بروئے کار لاتا ہے. ایک مکمل انسان زندگی کے حقائق کا سنجیدگی سے مطالعہ کرتا ہے اور درست وقت پر درست فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے مالا مال ہوتا ہے.
مصنف کہتا ہے لیکن ہمارے سماج میں تحقیق اور تجزئیے خود پسندی کے ماحول میں اور فیصلے پہلے سے کئے جاتے ہیں اور عوام کا استحصال کرکے ان فیصلوں کو نافذ کیا جاتا ہے. مذہب کے معاملات سے لے کر سماجی، سیاسی، معاشی، تعلیمی شعبوں میں لوگوں کو مغربی تہذیب، سیکولر ازم کے خلاف دروغ گوئی کو پیش کرکے سماج کو جامد کرکے رکھ دیا گیا ہےتاکہ عوام سوچنے و سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہو کر اپنے حقوق کا نہ سوچ سکے۔
مصنف کہتے ہیں کہ دینی ملاؤں نے کبھی دین کے معاملات پر توجہ نہیں دی اور اگر توجہ دی تو صرف عسکری اور جاگیرداری مفادات کے تحفظ کے لئے.جبکہ اسلامی ریاست کے قیام کے متعلق مصنف کہتا ہے کہ
“مملکت کا قیام عربوں کے سیاسی حالات میں بے حد ضروری تھا اسلام کا دعوٰی نہ تو روم جیسی مملکت کا قیام تھا اور نہ ایرانی شہنشاہیت کی تقلید بلکہ یہ انسانوں کی تربیت کے لئے آیا تھا. “
(صفحہ نمبر 18)
وہ مزید کہتے ہیں کہ پورے قرآن میں کہیں کوئی تفصیلی مضمون یا واضح بیان موجود نہیں کہ عربوں کی اپنی ایسی سلطنت کی تعمیر اسلام کا مقصد ہے جو جزیرہ عرب سے نکل کر دنیا کو فتح کرے اور تمام تہذیبوں کو مٹاکر صرف عربی تہذیب کا پرچم بلند کریں۔
(صفحہ نمبر 19)
مصنف کہتا ہے کہ مغرب دشمنی، خلافت کا قیام،سیکولر ازم کے خلاف منفی باتیں اور یورپ اور دیگر مذاہب سے وابستہ افراد کو اسلام دشمن کے طور پر پیش کیا جاتا ہے تاکہ عوام کو تحقیق اور تخلیق سے دور رکھ کر عقائد کے ذریعے ان میں نفرت اور تعصب کو پیدا کرکے مقصد کا حصول آسان بنایا جاسکے۔
مصنف اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ یورپ والوں کو کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ہمارے آبا کے علم کو چرایا، ہمیں علم سے محروم کردیا، انکی سازشوں کی وجہ سے ہم پیچھے رہ گئے اور وہ آگے نکل گئے اور سب سے دلچسپ دعوی کہ جدید علوم گمراہی کی طرف لے جاتی ہے ہمیں صرف وہ علم حاصل کرنا چاہئیے جو ہمارے مذہبی علماء کی نظر میں صیح ہے۔
(صفحہ نمبر 55)
یہ بات واضح ہے کہ اگر یورپ ترقی یافتہ ہے تو انہوں نے جدید علوم سے بھرپور استفادہ کیا جبکہ مسلمان جب آدھے دنیا پر حکمران تھے تو مسلم سائنسدانوں کی کتابوں کو سمندر برد کیا گیا جب فکر کو قید کردیا جائے تو وہاں ترقی نہیں بلکہ تننزلی آجاتی ہے۔دنیا کے اکثر اقوام کو اسلام دشمن سمجھا جاتا ہے جبکہ دنیائی تعلقات مفادات کی بنیاد پر طے کئے جاتے ہیں نہ کہ مذہب کی بنیاد پر۔
یہ کتاب پاکستانی معاشرے میں پنپنے والے مبالغوں اور مغالطوں کو بھرپور طریقے سے آشکار کرتی ہے جہنوں نے عوام کے ذہنوں کو سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے محروم کردیا ہے۔اس معاشرے میں بسنے والے عوام خود کو پارسا سمجھ کر بس کسی اچھے کام کا کریڈٹ لیتے ہیں اور دوسروں پر بس ملامت ڈال دیتے ہیں۔
مصنف صحافت کے شعبے سے منسلک افراد اور جج حضرات کے کردار کے متعلق کہتے ہیں کہ پیشہ وارانہ سے مراد ہے ذاتی پسند و ناپسند اور جذبات سے الگ ہو کر متعلقہ کام کو اس کے تقاضوں کے مطابق سر انجام دینا ہوتا ہے۔
(صفحہ نمبر 35)
لیکن پاکستان کے بیشتر صحافی اپنے موقف کو صیح جبکہ دوسرے کی رائے کو اہمیت دینے کو تیار نہیں بس ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے شور کیا جاتا ہے اور اپنی پسند اور ناپسند کے مطابق جانبدارانہ رویوں کا مظاہرہ کیا جاتا ہے جو صحافتی اصولوں کی خلاف ورزی ہے.۔جب ایک دوسرے کی رائے کا احترام ہوگا، برداشت کا ماحول ہوگا اور حقیقی مسلوں پر اختلاف ہوگا اور رائے شماری کی بناء پر کسی حل پر پہنچا جائے گا تو ہی معاشرہ ترقی کریں گے۔
بقول مصنف زندہ لوگوں کے اختلاف کا شور قبرستان کی خاموشی سے بہتر ہے کیونکہ یہ اختلاف تربیت کے مرحلوں سے گزر کر ایسے افکار کو جنم دیتا ہے جو مستقبل کی تعمیر کرسکتے ہیں۔
(صفحہ 42)
جج جس کی ذمہ داری انصاف کی ہے لیکن وہ آئین کی بالادستی کے بجائے اپنے ذاتی میلانات اور تعصبات پر فیصلے سناتا ہے۔بقول مصنف کے منتخب حکومت کو گرانے کی کوششوں میں انہی عناصر کی طرف سے کوشش کی گئی جنہوں نے آمریت کی مخالفت کی گئی۔
یہ کتاب جامد معاشرے کی حقیقی منظر کشی کرتی ہے جس میں عوام مبالغوں اور مغالطوں میں جھکڑ کر ذہنی پسماندگی کا شکار ہے جبکہ حکمران اور انکے دم چھلے عوام کو بیوقوف بنا کر اپنا شوق حکمرانی پورا کررہے ہیں۔

bsac_admin

Baloch Students Action Committee is a Student political organization that aims to work for the betterment of Education in Balochistan and politicizing the youth

ShareTweetShare
bsac_admin

bsac_admin

Baloch Students Action Committee is a Student political organization that aims to work for the betterment of Education in Balochistan and politicizing the youth

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Search

No Result
View All Result

Recent News

بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی حیدر آباد زون کا جنرل باڈی اجلاس منعقداقبال بلوچ زونل صدر، شیراز شکیل جنرل سیکرٹری منتخب

پنجاب یونیورسٹی لاہور کے طالبعلموں پر تشدد اور غازی یونیورسٹی ڈی جی خان کے طالبعلموں کی مسلسل ہراسگی نہایت ہی تشویشناک ہے۔

April 28, 2022
بلوچ تاریخ کی قدیم شخصیات

بلوچ تاریخ کی قدیم شخصیات

April 20, 2022
تنظیم کاری ٹی سائنسی وڑٹ کاریم نا گرج

تنظیم کاری ٹی سائنسی وڑٹ کاریم نا گرج

March 22, 2022

The website of Baloch Students Action Committee (BSAC) is an attempt to create political and social awareness among the Baloch Youth.

Recent News

  • پنجاب یونیورسٹی لاہور کے طالبعلموں پر تشدد اور غازی یونیورسٹی ڈی جی خان کے طالبعلموں کی مسلسل ہراسگی نہایت ہی تشویشناک ہے۔
  • بلوچ تاریخ کی قدیم شخصیات
  • تنظیم کاری ٹی سائنسی وڑٹ کاریم نا گرج

© 2020 BSAC - by BSAC_Technician Team.

No Result
View All Result
  • HOME
  • EDITORIAL
  • REPORT
  • ARTICLES
    • URDU
    • ENGLISH
    • BALOCHI
  • STATEMENT
  • BOOK REVIEW
  • INTERVIEW
  • NIVISHT MAGAZINE
  • BOOK
  • GALLERY
  • CONTACT

© 2020 BSAC - by BSAC_Technician Team.

Go to mobile version