نواب اکبر بگٹی کے زندگی اور سیاسی جدوجہد پر نال زون کا اسٹڈی سرکل
14 ستمبر 2021
نواب اکبر بگٹی کے زندگی اور سیاسی جدوجہد پر نال زون کا اسٹڈی سرکل
14 ستمبر 2021
بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی نال زون کی جانب سے اسٹڈی سرکل کا انعقاد کیا گیا جس میں موضوع(بک ریویو) نواب اکبر بگٹی نامہ تھا لیکچر ار سنگت عاطف بلوچ تھے
عاطف بلوچ نواب اکبر بگٹی کی زندگی کے بارے میں بات کرتے ہوے کہا کہ نواب اکبر بگٹی 12جولائی 1927
کوحاجی کوٹ بارکھان میں پیدا ہوے ابتدائی تعلیم سنڈیمن کوئٹہ سے اور باقاعدہ تعلیم میجربرچ مسز روزمیرا گرائمر کراچی سے حاصل کیا
1939 کو نواب صاحب کے والد محترم وفات ہوئے اس کے والد کی وفات کے بعد جمال خان نگران سردار منتخب ہوئے اور اس کے بعد نواب صاحب اپنے تعلیمی سلسلہ کو آگے جاری
رکھنے کیلے واپس کراچی آئے ۔ 1946 کو نواب صاحب اپنے قبیلے کی سردار منتخب ہوے ۔ 1958 کو ریپلکن پارٹی میں شمولیت اختیار کی یہ نواب صاحب کے پہلی سیاسی جماعت تھی نواب صاحب کی تجویز کو مدنظر رکھتے ہوئے گوادر کو چھ (6) ملین ڈالر ایوض مسقط سے خریدا گیا 1970 کو بٹھو کوئٹہ آئے اور نواب صاحب کو پی پی پی میں شمولیت کی دعوت دی
1970 کو نواب صاحب کو انسومیا کی بیماری لاحق ہوئی جس کی وجہ سے رات بھر کتاب پڑھتے تھے اور 1988 کو BNAتشکیل دی اور انتخابات میں حصہ لیا اور وہ بلوچستان اسمبلی کی رکن بن گئے یعنی وزیر اعلی منتخب ہوئے 1990 میں انھوں نے اپنے لیے ایک الگ پارٹی بنائی جمہوری وطن پارٹی کی نام سے اور دوبار رکن اسمبلی منتخب ہوئے ۔1993 میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوے ۔
نواب اکبر خان انتہا پسند یا ضدی انسان نہیں تھے انہوں نے بلوچستان کے مسئلہ پر کبھی بات چیت اور مذاکرات سے گریز نہیں کیا انہوں نے جنرل مشرف کی بھیجی ہوئی کئی ٹیموں کے ساتھ بات چیت کی وہ خود جنرل مشرف سے بھی ملنے کو تیارتھے لیکن عین موقع پر مشرف اور انکے ساتھیوں نے فیصلہ کیا کہ مذاکرات کی بجائے طاقت کا استعمال کیاجائے انہیں اندازہ نہیں تھا کہ یہ عمل انکے گلے پڑے گا اور ہمیشہ نواب صاحب کے ناحق قتل کا الزام ان کا پیچھا کرتا رہے گا نواب صاحب کے تمام مطالبات بشمول ساحل ووسائل کی بلوچستان کوواگزاری ریاستی آئین کے تحت تھا وہ اسلام آباد کے حکمرانوں کو سمجھانے کی کوشش کرتے رہے کہ بلوچستان بلوچوں کا مادر وطن ہے اس پر قبضہ مت کرو بلکہ ایک پولیٹکل سٹیلمنٹ سے کام لو مقامی لوگوں کے حقوق کی ضمانت دو اور بلوچستان کو مفتوحہ علاقہ مت سمجھو لیکن حکمران یہ ماننے کو تیار نہیں تھے جنرل مشرف نے سوئی جہاز بھیج کر اسے واپس بلالیا یعنی خود ہی مذاکرات کا دروازہ بند کردیا لیکن نواب نے صاحب کردارہونے کا یہ ثبوت پیش کیا کہ وہ حکمرانوں کے سامنے جھکے نہیں انہوں نے رحم کی کوئی بھیک نہیں مانگی پیرانہ سالی اور کینسر کے باوجود انہوں نے اکیلے جبر کے مقابلہ کا فیصلہ کیا وہ اپنا گھر چھوڑ کر پہاڑوں پر چلے گئے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ پہاڑ بلوچوں کی آخری پناہ گاہ ہیں وہ بالاچ گورگیج کی شاعری سے متاثر تھے جس سے پہاڑوں کو بلوچوں کا قلعہ قراردیا تھا۔
جنرل پرویز مشرف نے جب تراتانی میں آپریشن کا فیصلہ کیا تھا تو وہ طاقت کے زعم میں تھا اور انہیں گھمنڈ تھا کہ نواب صاحب کی لاش بھی بھٹو کی طرح خاموشی کے ساتھ دفن کی جائے گی اور کچھ نہیں ہوگا مشرف ایک اور دیس کا آدمی تھا وہ موجودہ پاکستان کی روایات اور صورتحال کو جڑ تک نہیں جانتا تھا اس لئے اس نے ایک برطانوی سپاہی کی طرح سوچا پرویز مشرف کو کیا دوش اسکے پیشرو حکمران بھی ایک ہی ڈگرپر چلے اسکندر مرزا ہو ایوب خان ہو یحییٰ خان ہو ضیاؤ الحق ہو سب ایک طرح سے سوچتے تھے چونکہ ان کی تربیت برطانوی اداروں سے ہوئی تھی اس لئے وہ ہر مسئلہ کا حل طاقت کے استعمال کو سمجھتے تھے حالانکہ ان کا آقا سیاسی طریقے بھی آزماتا تھا لیکن یہ اس سے نابلد تھا۔
جب بینظیر وزیراعظم تھیں تو انہیں ایک خاص رپورٹ ملی جس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ نواب صاحب”بلڈ کلاٹ“ کی بیماری میں مبتلا ہیں ان کے ایک پیر میں کینسر کے اثرات زیادہ ہیں ڈاکٹروں کے مطابق وہ زندگی کے آخری دن گزاررہے ہیں لیکن ڈاکٹروں کی رپورٹ کے برعکس نواب صاحب چند برس تک زندہ رہے اور انہیں یہ موقع ہاتھ لگا کہ وہ تاابد زندہ رہیں۔
آج دیکھیں کے ریاست کے طول وعرض میں خواتین کے ساتھ کیا سلوک ہورہا ہے نواب صاحب نے ایک بیرونی خاتون ڈاکٹر شازیہ کی عزت کی خاطر نہ صرف اپنی زندگی داؤ پر لگادی بلکہ اس کے بعد جو ردعمل آیا اس کے نتیجے میں ہزاروں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے نواب صاحب کا یہ تاریخی کردار ہمیشہ یاد رکھاجائیگا۔
انہوں نے دلیری اور جوانمردی کا مظاہرہ کیا وہ ڈٹے رہے حتیٰ کہ پرویز مشرف نے بمباری کرکے نواب صاحب کو 26 اگست 2006 میں شہید کردیا۔
نواب صاحب کی شہادت کے بعد عمومی خیال یہی تھا کہ کوئی بڑا ری ایکشن نہیں ہوگا لیکن بلوچستان کے طول وعرض کے علاوہ 26اگست کی رات کو جب کراچی شہر میں شدید گھیراؤ جلاؤ ہوا تب حکومت کو اندازہ ہوا کہ لوگوں نے بہت گہرائی سے نواب صاحب کا درد محسوس کیاہے۔
نواب صاحب نے جاتے جاتے اپنا ورثہ یا اپنی سیاسی میراث ان بلوچ نوجوانوں کے سپرد کی جن سے ان کا کوئی خونی رشتہ نہیں تھا وہ جانتے تھے کہ یہی لوگ ان کی جدوجہد کو آگے بڑھائیں گے غالباً ان کو اندازہ تھا کہ براہمداغ خان کو چھوڑ کر انکے دیگر وارث کیا راستہ اپنائیں گے آج جو کچھ ہورہا ہے وہ سب کے سامنے ہے اور اس قابل نہیں ہے کہ اس پر کوئی تبصرہ کیا جاسکے اسی طرح مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں کہ براہمداغ بھی کتنے پانیوں میں ہے انہوں نے ابتک ڈاکٹرمالک کے سوا کسی اور سیاسی یا حکومتی شخصیت سے ملاقات نہیں کی البتہ افواہ ہے کہ اعلیٰ اہلکار ان سے ملتے رہے ہیں لیکن آج تک اس کی تصدیق نہیں ہوئی کچھ عرصہ بعد ان کے کزن شاہ زین بگٹی ان سے ملنے جائیں گے تو حقیقت حال کا پتہ چلے گا لیکن کئی لوگوں کا یہ اندازہ ہے کہ براہمداغ کوئی عامیانہ اور غیرسنجیدہ کام کی انجام دہی سے گریز کریں گے نواب صاحب نے صرف انہی کی سیاست تربیت کی تھی وہ ہر وقت ان کو اپنے ساتھ رکھتے تھے وہ نواب صاحب کے سیاسی ورثہ قوم سے ان کی وابستگی اور نظریات سے کافی حد تک واقف ہوچکے تھے وہ انہیں اپنا سیاسی جانشین سمجھتے تھے اور اگر زندگی رہتی تو لوگ دیکھتے کہ نواب صاحب خود ان کی جانشینی کا اعلان کرتے اس کے باوجود اگربراہمداغ کوئی کمزوری دکھاتے ہیں تو یہ ان کی ذاتی کمزوری ہوگی ایک مرتبہ ایک ٹی وی پروگرام میں کہہ رہے تھے کہ
قومیں مرنے سے ختم نہیں ہوتیں بلکہ بزدلی دکھانے سے ختم ہوتی ہیں
نواب صاحب کی شہادت کے بعد عمومی خیال یہی تھا کہ کوئی بڑا ری ایکشن نہیں ہوگا لیکن بلوچستان کے طول وعرض کے علاوہ 26اگست کی رات کو جب کراچی شہر میں شدید گھیراؤ جلاؤ ہوا تب حکومت کو اندازہ ہوا کہ لوگوں نے بہت گہرائی سے نواب صاحب کا درد محسوس کیاہے۔
انہوں نے دلیری اور جوانمردی کا مظاہرہ کیا وہ ڈٹے رہے حتیٰ کہ پرویز مشرف نے بمباری کرکے نواب صاحب کو 26 اگست 2006 میں شہید کردیا۔
آج دیکھیں کے ریاست کے طول وعرض میں خواتین کے ساتھ کیا سلوک ہورہا ہے نواب صاحب نے ایک بیرونی خاتون ڈاکٹر شازیہ کی عزت کی خاطر نہ صرف اپنی زندگی داؤ پر لگادی بلکہ اس کے بعد جو ردعمل آیا اس کے نتیجے میں ہزاروں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے نواب صاحب کا یہ تاریخی کردار ہمیشہ یاد رکھاجائیگا۔
جب بینظیر وزیراعظم تھیں تو انہیں ایک خاص رپورٹ ملی جس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ نواب صاحب”بلڈ کلاٹ“ کی بیماری میں مبتلا ہیں ان کے ایک پیر میں کینسر کے اثرات زیادہ ہیں ڈاکٹروں کے مطابق وہ زندگی کے آخری دن گزاررہے ہیں لیکن ڈاکٹروں کی رپورٹ کے برعکس نواب صاحب چند برس تک زندہ رہے اور انہیں یہ موقع ہاتھ لگا کہ وہ تاابد زندہ رہیں۔
جنرل پرویز مشرف نے جب تراتانی میں آپریشن کا فیصلہ کیا تھا تو وہ طاقت کے زعم میں تھا اور انہیں گھمنڈ تھا کہ نواب صاحب کی لاش بھی بھٹو کی طرح خاموشی کے ساتھ دفن کی جائے گی اور کچھ نہیں ہوگا مشرف ایک اور دیس کا آدمی تھا وہ موجودہ پاکستان کی روایات اور صورتحال کو جڑ تک نہیں جانتا تھا اس لئے اس نے ایک برطانوی سپاہی کی طرح سوچا پرویز مشرف کو کیا دوش اسکے پیشرو حکمران بھی ایک ہی ڈگرپر چلے اسکندر مرزا ہو ایوب خان ہو یحییٰ خان ہو ضیاؤ الحق ہو سب ایک طرح سے سوچتے تھے چونکہ ان کی تربیت برطانوی اداروں سے ہوئی تھی اس لئے وہ ہر مسئلہ کا حل طاقت کے استعمال کو سمجھتے تھے حالانکہ ان کا آقا سیاسی طریقے بھی آزماتا تھا لیکن یہ اس سے نابلد تھا۔
نواب اکبر خان انتہا پسند یا ضدی انسان نہیں تھے انہوں نے بلوچستان کے مسئلہ پر کبھی بات چیت اور مذاکرات سے گریز نہیں کیا انہوں نے جنرل مشرف کی بھیجی ہوئی کئی ٹیموں کے ساتھ بات چیت کی وہ خود جنرل مشرف سے بھی ملنے کو تیارتھے لیکن عین موقع پر مشرف اور انکے ساتھیوں نے فیصلہ کیا کہ مذاکرات کی بجائے طاقت کا استعمال کیاجائے انہیں اندازہ نہیں تھا کہ یہ عمل انکے گلے پڑے گا اور ہمیشہ نواب صاحب کے ناحق قتل کا الزام ان کا پیچھا کرتا رہے گا نواب صاحب کے تمام مطالبات بشمول ساحل ووسائل کی بلوچستان کوواگزاری ریاستی آئین کے تحت تھا وہ اسلام آباد کے حکمرانوں کو سمجھانے کی کوشش کرتے رہے کہ بلوچستان بلوچوں کا مادر وطن ہے اس پر قبضہ مت کرو بلکہ ایک پولیٹکل سٹیلمنٹ سے کام لو مقامی لوگوں کے حقوق کی ضمانت دو اور بلوچستان کو مفتوحہ علاقہ مت سمجھو لیکن حکمران یہ ماننے کو تیار نہیں تھے جنرل مشرف نے سوئی جہاز بھیج کر اسے واپس بلالیا یعنی خود ہی مذاکرات کا دروازہ بند کردیا لیکن نواب نے صاحب کردارہونے کا یہ ثبوت پیش کیا کہ وہ حکمرانوں کے سامنے جھکے نہیں انہوں نے رحم کی کوئی بھیک نہیں مانگی پیرانہ سالی اور کینسر کے باوجود انہوں نے اکیلے جبر کے مقابلہ کا فیصلہ کیا وہ اپنا گھر چھوڑ کر پہاڑوں پر چلے گئے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ پہاڑ بلوچوں کی آخری پناہ گاہ ہیں وہ بالاچ گورگیج کی شاعری سے متاثر تھے جس سے پہاڑوں کو بلوچوں کا قلعہ قراردیا تھا۔
1970 کو نواب صاحب کو انسومیا کی بیماری لاحق ہوئی جس کی وجہ سے رات بھر کتاب پڑھتے تھے اور 1988 کو BNAتشکیل دی اور انتخابات میں حصہ لیا اور وہ بلوچستان اسمبلی کی رکن بن گئے یعنی وزیر اعلی منتخب ہوئے 1990 میں انھوں نے اپنے لیے ایک الگ پارٹی بنائی جمہوری وطن پارٹی کی نام سے اور دوبار رکن اسمبلی منتخب ہوئے ۔1993 میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوے ۔
رکھنے کیلے واپس کراچی آئے ۔ 1946 کو نواب صاحب اپنے قبیلے کی سردار منتخب ہوے ۔ 1958 کو ریپلکن پارٹی میں شمولیت اختیار کی یہ نواب صاحب کے پہلی سیاسی جماعت تھی نواب صاحب کی تجویز کو مدنظر رکھتے ہوئے گوادر کو چھ (6) ملین ڈالر ایوض مسقط سے خریدا گیا 1970 کو بٹھو کوئٹہ آئے اور نواب صاحب کو پی پی پی میں شمولیت کی دعوت دی
1939 کو نواب صاحب کے والد محترم وفات ہوئے اس کے والد کی وفات کے بعد جمال خان نگران سردار منتخب ہوئے اور اس کے بعد نواب صاحب اپنے تعلیمی سلسلہ کو آگے جاری
کوحاجی کوٹ بارکھان میں پیدا ہوے ابتدائی تعلیم سنڈیمن کوئٹہ سے اور باقاعدہ تعلیم میجربرچ مسز روزمیرا گرائمر کراچی سے حاصل کیا
عاطف بلوچ نواب اکبر بگٹی کی زندگی کے بارے میں بات کرتے ہوے کہا کہ نواب اکبر بگٹی 12جولائی 1927
نواب اکبر بگٹی نامہ تھا لیکچر ار سنگت عاطف بلوچ تھے
بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی نال زون کی جانب سے اسٹڈی سرکل کا انعقاد کیا گیا جس میں موضوع(B
14 ستمبر 2021

Baloch Students Action Committee is a Student political organization that aims to work for the betterment of Education in Balochistan and politicizing the youth