کتاب کا نام. تعلیم اور مظلوم عوام
مصنف. پاؤلو فرارے
چمشانک : اشرف بلوچ
کتاب ‘تعلیم اور مظلوم عوام برازیلین مصنف پاؤلو فرارے کی تصنیف ہے جسے گوشہ ادب جناح روڈ کوئٹہ سے شائع کیا گیا۔اس کتاب کے 154 صفحات ہیں جبکہ یہ کتاب چار ابواب پر مشتمل ہے. اس کتاب میں مصنف نے ظالم اور مظلوم کے درمیان نہ صرف فرق کی نشاندہی کی ہے بلکہ اس تحقیق میں انہوں نے نو آبادیاتی نظام، نو آبادیاتی نظام تعلیم، نو آبادیاتی ذہنیت کے پردے کو چاک کردیا ہے. اسکے علاوہ مصنف نے رہنما اور عوام کے تعلقات کی بھی وضاحت کی ہے. اس کتاب میں بینکنگ نظریہ تعلیم کو تنقید کا نشانہ بنا کر آزادی بخش تعلیم کی حمایت میں بھی پر مغز دلائل دئیے گئے ہیں۔
کتاب کے پہلے باب میں مصنف انسانی آزادی کے سلب ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جب انسان کی آزادی سلب کی جاتی ہے تو اسکے انسانی خاصیت پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اسکے سوچنے کا انداز اور عمل کرنے کے طریقوں میں تبدیلی پیدا ہوجاتی ہے۔مظلوم پر ایک خوف طاری ہوتا ہے اور اسی خوف کے ابھار کی وجہ سے وہ خود کو ظالم کی طرح تشبیہ دینے لگ جاتا ہے۔ ظالم جو حکم اور طاقت کے ذریعے اپنی خواہش عوام پر ٹھونس کر اسے اپنا مطیع بنالیتا ہے. جب تک مظلوم کو اس بات کا ادراک نہیں ہوتا کہ جس خوف کی وجہ سے وہ انسانی خصوصیات سے محروم ہے اسکی وجہ اسکی اپنی ذات ہے جس نے ظالم کو اپنے دل میں گھر بنانے کی اجازت دی ہے
مصنف اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ مظلوموں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد کریں کیونکہ آزادی نہ ایک تحفہ ہے اور نہ اتفاقی حادثے کا نتیجہ بلکہ آزادی جدوجہد اور جنگ کے حسین امتزاج سے ہی ممکن ہے۔جس کا مطلب ظالم کو اپنے وجود سے نکال کر ایک ایسی دنیا کی تشکیل جہاں ظالم کو بھی آزادی نصیب ہے۔
مصنف اس جانب بھی اشارہ کرتا ہے کہ ظالم کے تعلیمی نظام سے متاثر نو آبادی ذہنیت کے مالک درمیانی طبقے کے لوگ اوپری طبقے کے لوگوں کی برابری کی تمنا رکھ کر اپنے ہی عوام پر ظلم و ستم کرکے ظالم کے نظام کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ظالم کے طریقہ زندگی میں کشش محسوس کرنے والےاسکی تقلید اور نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے سماجی صورتحال سے مکمل بیگانگیت کا شکار ہوجاتے ہیں۔
اس کتاب میں تبدیلی کے لئے برسر پیکار انقلابی تنظیموں اور رہنماؤں کے لئے مفید مشورے بھی موجود ہے کیونکہ دوران جدوجہد کئی رہنما ظالم کے استبدادی حربوں کا شکار ہوکر محض پروپیگنڈے پر انحصار کرکے عوام کو سر گرم حیثیت دینے کے بجائے مشین یا پرزے کی طرح استعمال کرتے ہیں جس کا نتیجہ موت کی شکل میں نمودار ہوگا۔
کتاب کے باب نمبر دو میں مصنف استاد اور طالب علم کے رشتے اور تعلیمی نظام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہتا ہے کہ ظالم ہمیشہ مظلوم کو بینکنگ نظام تعلیم کے ذریعے اپنا مطیع بنالیتا ہے۔اس نظام تعلیم کو استعمال میں لا کر طالب علموں خالی برتن سمجھ کر پر کرتا ہے اور تحکم پسند تعلیم کے ذریعے اسکی خدادانہ صلاحیتوں کا گلا گھونٹا جاتا ہے۔ جس سے طالب علم مشینی پرزے میں تبدیل ہو کر خودشناسی سے محروم ہوتا ہے اور صرف حکم کا غلام بن جاتا ہے۔مصنف اس جانب توجہ دلاتا ہے کہ آزاد بخش تعلیم اور تنقیدی شعور کے لئے تعلیمی سلسلہ استاد اور طالب علم کے تضاد کے حل سے شروع ہونا لازمی ہے۔ اس نظام تعلیم میں استاد سکھانے والا نہ ہو بلکہ خود بھی سیکھنے والا ہو۔استاد طالب علم کو حقیقی مسلے سے آشکار کرائیں اور تعلیم کو مسلہ کے طور پر پیش کرکے اس کا حل نکالنے کی کوشش کریں۔
اس کتاب کے باب نمبر تین میں مکالمے کی اہمیت،مکالمے میں عوام کی شرکت اور سماج کے مرکزی خیال(حقیقی مسلئے کی نشاندہی) اور رہنما کے کردار پر بحث کیا گیا ہے. مصنف کہتے ہیں کہ لفظ سچا نہیں ہوسکتا اگر وہ مستند عمل نہ ہو. سوچ و بچار اور عمل لفظ کے اہم پہلو ہے۔ کیونکہ غور وفکر عمل کی طرف لے جاتی ہے اور عمل مذید غوروفکر کو جنم دیکر سماج کی تبدیلی کو ممکن بنادیتی ہے۔
یقین، امید، انکساری اور تنقیدی سوچ کے بغیر سچا مکالمہ وجود میں نہیں آسکتا اور پر امیدی ہاتھ باندھ کر انتظار میں مشغول ہوجانے سے نہیں آتی بلکہ جدوجہد کے ذریعے ہی امید کو زندہ رکھا جاسکتا ہے۔ مکالمہ ایک دوسرے کو زیر کرنے کی نیت سے نہیں بلکہ ایک دوسرے کو سننے اور برداشت کرنے کی نیت سے کرنی چاہئے اور ایک رہنما کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے مکالمے میں عوام کو شریک کریں. اپنے لفظوں کی ادائیگی سے عوام کو زہر کرنے سے اجتناب کریں کیونکہ زہر بنانے کا عمل مکالماتی فطرت کے مخالف عناصر کا شیوہ ہے۔
مکالماتی فطرت کسی سماج کے اہم مسلئے کی تحقیق کے ذریعے ہی حاصل کی جاسکتی ہے۔ہر سماج میں حقیقی مسلہ وجود رکھتا ہےلیکن جبر و تشدد پر مبنی صورتحال میں ڈوبے ہوئے لوگ مرکزی خیال کا ادراک نہیں کرپاتے جبکہ سچے انقلابی عوام کو نعروں میں الجھا کر تختہ مشق بنانے کی کوششوں سے اجتناب کریں اور اہم مسلئے کی تلاش میں زبان اور خیالات کو اپنا ہدف بنا کر حقائق کو بیان کرنے کے لئے استعمال کریں۔
کتاب کے باب نمبر چار میں عوام اور رہنما کے تعلقات، ظالم کے غلبہ، تقسیم کرو اور حکومت کرو پالیسی، کلچرل حملہ آور عیارانہ ساز باز کو اجاگر کرکے اتحاد کی جانب متوجہ کرتے ہوئے مصنف کہتا ہے کہ ساز باز، نعرہ بازی، فکری تسلط، سیاسی نظم و ضبط اور یک طرفہ احکامات کے اجزاء انقلابی مستند عمل کی تشکیل نہیں کرسکتے کیونکہ ایسے اجزاء دراصل تسلط و غلامی کے عمل کی تشکیل کرتے ہیں۔عوام پر اعتماد نہ کرنا اور عوام کے بغیر رہنماء اپنے آزادی کے مقصد کے حصول میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتےکیونکہ عوام وہ سانچہ ہے جو رہنماء کی تخلیق کرتا ہے۔قائدین اور عوام کا مشترکہ غوروفکر وعمل اور اتحاد ہی انقلاب کو ممکن بناسکتا ہے۔
مصنف ظالم کے متعلق کہتا ہے کہ وہ غیر مکالماتی عمل کو فروغ دینے کے لئے جھوٹے افکار و نظریات کے ذریعے جبر و استحصال پر مبنی نظام کو برقرار رکھنے کے لئے غلبہ اور تقسیم کرو کی پالیسی کے تحت عوام کو مغلوب کرکے بیگانگیت کا شکار کرکے تقسیم کرتا ہے۔
عیارانہ ساز و باز کے ذریعے وہ عوام پر ایسے حملہ آور ہوتا ہے کہ مظلوم ظالم کی تقلید پر مجبور ہو کر ان کی پوزیشن کو مضبوط بناتے ہیں. اسلیے مصنف رہنماؤں پر زور دیکر کہتے ہیں کہ عامل کے عمل کا نشانہ وہ حالات ہوتے ہیں جنہیں تبدیل کرانا مقصود ہو۔اسکے لئے رہنماء عوام کو مفعول کے درجے پر نہ اتاریں بلکہ عوام میں یقین و اعتماد پیدا کرکے ایک ایسے انسانی اتحاد کو جنم دیں جو انکی آزادی حاصل کرنے کے مقصد کو پورا کرسکیں۔ اس اتحاد کے ذریعے عوام جان سکیں کہ وہ کیوں اور کس طرح جبری حقیقت کے شکنجے میں گرفتار ہے۔
کتاب تعلیم اور مظلوم عوام کا مطالعہ قاری کے ذہن کو دریچوں کو کھول کر سماج میں پنپنے والی نو آبادیاتی نظام، نو آبادیاتی نظام تعلیم کے قلعی کو کھول دیتی ہے اور قاری کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ وہ ایک ایسے سماج میں کیوں زندگی بسر کررہا ہے جہاں وہ اپنے زندگی گزارنے کے فیصلے خود نہیں لے سکتاہے۔یہ کتاب نہ صرف نو آبادیاتی نظام تعلیم کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے بلکہ اس سوچ کو بھی ہدف تنقید کا نشانہ بناتا ہے جو اس نظام کو برقرار رکھنے کی کوششوں میں مصروف عمل رہ کر غلامی میں جکڑی عوام کو مذید غلامی میں دھکیل دیتے ہیں۔
یہ کتاب نو آبادیاتی نظام تعلیم سے متاثرہ طالب علموں کے لئے نہ صرف اہمیت کی حامل ہے بلکہ سیاست سے وابستہ افراد کے لئے بھی اس کا مطالعہ ناگزیر ہے کیونکہ اس کتاب کے مطالعے سے انسان اپنی سوچ میں تبدیلی پیدا کرکے سماج کے حقیقی مسلے کی نہ صرف نشاندہی کرسکتا ہے بلکہ تنقیدی شعور سے لیس ہو کر حق و سچ کی جدوجہد میں بھی شریک ہوسکتا ہے۔

Baloch Students Action Committee is a Student political organization that aims to work for the betterment of Education in Balochistan and politicizing the youth