کتاب: دانائی کا سفر
تبصرہ: ظہیر بلوچ
مذکورہ بالا کتاب ماہر نفسیات ڈاکٹر خالد سہیل اور شعبہ طب سے وابستہ ڈاکٹر بلند اقبال کے علمی مکالمے پر مشتمل ہے. طب سے تعلق رکھنے والے ان دونوں حضرات نے کینیڈا ون ٹی وی میں ‘ان سرچ آف وزڈم؛ کے نام سے ایک علمی سیریز کا آغاز کیا جو چھتیس اقساط پر مشتمل تھی. ان تمام اقساط کو ہم سب ویب سائٹ کے لکھاری جناب عبدالستار صاحب نے تحریری شکل میں محفوظ کرکے کتابی شکل دیکر سانجھ پبلشرز مزنگ روڈ لاہور سے شائع کیا. اس کتاب میں کل تین سو ستائیس صفحات ہے جبکہ یہ کتاب تین حصوں پر مشتمل ہے جس میں دور قدیم کی دانائی، قرون وسطی کی دانائی اور دور جدید کی دانائی پر مفصل روشنی ڈالی گئی ہے. دور قدیم کے فلاسفر اور دانا انسانوں میں سدھارتھ، کنفیوش، لاوزی، رابندرناتھ ٹیگور، کبیر داس، رابعہ بصری، قدیم مغربی فلاسفر افلاطون، ذرتشت کی مذہبی دانائی، مہاتما بدھ، مہاویراکے افکار اور دانائی کو بیان کیا گیا ہے اور ان تمام عنوانات پر ایک مجموعی نظر بھی اس کتاب کا حصہ ہے. قرون وسطی میں ال کندی، الرازی، الفارابی، بوعلی سینا، غزالی، ابن رشد، ابن تمیمہ، سید قطب، جلال الدین رومی، علامہ اقبال، کے حوالوں پر مشتمل ہے جبکہ اس حصے کے اختتام پر قرون وسطی کی دانائی پر مجموعی روشنی ڈالی گئی ہے جبکہ دور جدید میں ڈیکارٹ، ہیوم، آدم اسمتھ، روسو، میکس ویبر، ہیگل اور مارکس، گرامچی اور لوئی التھوزر، نطشے اور دس اسپوک، سارتر، ڈارون اور ڈاکنز، سگمنڈ فرائیڈ، یوال حراری، ہاکنگ کی دانائی اور افکار پر روشنی ڈالی گئی ہے جبکہ مجموعی طور پر ان افکار پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے جبکہ تیسرے حصے میں مشکل اصطلاحات کے معنی بھی بیان کئے گئے ہیں.
علمی مکالمے کا آغاز ہرمین ہیسے کے ناول سدھارتھا سے شروع ہوتا ہے جو دانائی سے بھرپور ناول ہے جس میں ناول کے کردار کا سفر ان سوالوں سے شروع ہوتا ہے کہ سچ اور دانائی کیا ہے؟ دنیا کے انسان پریشان کیوں ہے؟ انسان اپنے دکھوں کو سکھوں میں کیسے بدل سکتے ہیں؟ انسان اس کرہ ارض کو ایک پر امن مقام کیسے بناسکتے ہیں؟ ان سوالات کی تلاش سدھارتھا سے شروع ہو کر ہاکنگ تک ختم ہوجاتا ہے لیکن انسان کا جستجو ابھی تک جاری ہے.
اس کتاب میں کئی مقامات پران فلاسفروں، مفکروں اور دانشوروں کے اقوال سے قاری کو سچائی کے بارے میں آگاہ کیا گیا ہے جس طرح سدھارتھا اپنے سفر میں یہ بات عیاں کرتا ہے کہ سب سے بڑی قربانی اپنے نفس کی قربانی ہے اور انسان کا سب سے بڑا استاد اس کا ذاتی تجربہ ہے اور اس کو ثابت کرنے کے لئے ڈاکٹر خالد سہیل اس مثال کو پیش کرتے ہیں کہ اگر آپ دنیا میں کہیں بھی بدھا کو تلاش کرلیتے ہیں تو اسے ختم کردیں یعنی سچ کی تلاش خود کرنی ہے نہ کہ کسی کو اپنا استاد اور گرو تسلیم کرنا ہے.
کتاب کے پہلے حصے میں روح کا جسم سے کیا تعلق ہے؟ دور قدیم کا تصور روح اور موجودہ تصور روح کے درمیان تفاوت کو بیان کیا گیا ہے جبکہ مختلف کتابوں کا حوالہ دیکر چینی، انڈین، ایرانی اور یونانی روایت کا بھی ذکر کیا گیا ہے. مڈل ایسٹ کے مذاہب کے تصور میں اچھائی کرو اور برائی سے بچ جاؤ جبکہ بدھا، جین اور ہندو ازم کے مطابق خود کو دنیا سے آزاد کرو اور خواہشات کو ترک کرلو
کچھ تصورات ایران اور عرب سے ملتے ہیں جبکہ چینی تصورات کے مطابق ہمیں اپنا تعلق فطرت سے جوڑنا چاہیے..
انسان کا دکھ سے واسطہ کیوں پڑتا ہے اس کے بارے میں مذہبی نقطہ نظر کہتا ہے کہ ہم اپنے مذہبی نقطہ نظر سے روگردانی کے باعث دکھ میں پڑجاتے ہیں جبکہ جین، بدھا اور مہاویرا اسے دنیا سے وابستگی کو وجہ قرار دیتے ہیں جبکہ سیکولر روایت کے مطابق دکھوں میں مذہب اور خدا کا کوئی کردار نہیں.
بلند اقبال صاحب کہتے ہیں کہ سچائی کو پانے کے لیے سر پر کیپ کنفیونش کی ہونی چاہئیے، لبادہ لاوزی کا ہونا چاہئیےاور جوتا بدھا کا ہونا چاہئیے. آپ کے اندر کی سچائی جس کا تعلق چاہئیے مذہبی ہو، غیر مذہبی، روحانی یا غیر روحانی ہو، جس قسم کی بھی ہو، اس سچائی کا آپ کی باہر والی سچائی کے ساتھ ملنا بہت ضروری ہے اسی صورت میں ہی زندگی کے صیح معنی پیدا ہونگے.
صفحہ نمبر 122
کتاب کے دوسرے حصے میں مسلم سیریز کے حوالے سے چھ پروگرامز پیش کئے گیے ہیں جنہیں روایت پسند، صوفیانہ روایت اور فلاسفیکل روایت میں تقسیم کیا گیا ہے. اس سارے پروگرامز کا مقصد مسلمانوں کے سنہرے دور سے لے کر زوال کے اسباب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.
اس وقت خطے میں بازنطین سلطنت اور پرشین سلطنت جو علمی اعتبار سے کافی ترقی یافتہ سلطنتیں تھی لیکن جنگ و جدل کی وجہ سے زخم خوردہ ہوچکی تھی جبکہ عربوں کے پاس نہ کوئی سماجی ڈھانچہ تھا اور نہ ہی سیاسی وہ ہر لحاظ سے کمزور تھے لیکن پیغمبر اسلام کی آمد کے بعد ان کی ترقی کا راستہ کھل گیا، خلافت کا دور فتوحات کا دور تھا اسکے بعد سنہری دور کا آغاز ہوا
منگولوں کے حملوں کے بعد بادشاہت کو رواج دیا گیا عثمانیہ سلطنت کی بنیاد رکھی گئی اسکے بعد مسلمانوں کا زوال شروع ہوا.
دونوں ماہر طب کہتے ہیں کہ الکندی، الرازی، الفارابی، بوعلی سینا، غزالی اور ابن رشد یونانی فلسفے سے منسلک تھے مغرب میں سائنسی مائنڈ سیٹ تھا جبکہ مشرق آسمانی نقطہ نظر پر یقین رکھنے والے تھے، منگولوں کے حملے کے بعد ابن تیمیہ اور سید قطب کے انتہا پسند نظریات کی وجہ سے مسلم حقیقت پسندی سے انتہا پسندی کی طرف مائل ہوئے جبکہ اقبال کے متعلق صفحہ 167 میں ڈاکٹر خالد سہیل کہتے ہیں کہ وہ فلسفی کے بجائے مذہبی ریفارمر تھے.
دانائی کے سفر کا تیسرا حصہ یورپ اور شمالی امریکہ کے مختلف دانشوروں اور فلاسفروں کے نظریات اور افکار کا نچوڑ ہے جس میں کارل مارکس ہیگل اور گرامچی کے علاوہ سگمنڈ فرائیڈ، یوحول ہراری اور اسٹیفن کنگ کے بارے میں بحث کیا گیا ہے. یورپ میں نشاط ثانیہ کا دور، پرنٹنگ پریس کی ایجاد، مارتھر لوتھر کنگ کی جدوجہد، اور انقلاب فرانس نے انسانی اقدار کو بحال کرکے سیکولر سوسائٹی کی بنیاد رکھی اور مذہب کو انسان کا انفرادی مسلہ خیال کیا. سائنسی اور صنعتی انقلاب کے یورپ کو نئے دور میں داخل کیا.
یہ کتاب ایک نایاب تحفہ ہے خاص کر پسماندہ سماجوں کے لئے جہاں طاقت کو قبولیت حاصل ہے اور مکالمے کی اہمیت نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ پاکستان اور دیگر سماجوں میں علمی مکالمے کے بجائے آمرانہ رویوں کے ذریعے مکالمے کا گلا گھونٹا جاتا ہے اور بزور طاقت اپنے رائے کو عوام پر مسلط کیا جاتا ہے. ماہرنفسیات بلند اقبال اور ڈاکٹر خالد سہیل کی یہ کاوش ایک نئی سوچ کو پروان چڑھانے میں معاون و مددگار ثابت ہوگی کیونکہ اس کتاب میں دونوں افراد نے دنیا کے مختلف خطوں، تہذیبوں اور مذاہب کا جائزہ لیتے ہوئے ان کی خوبصورتی کو بیان کیا ہے اور ان سے فائدہ اٹھانے پر زور دیا ہے
یہ کتاب ان سماجوں کے طالب علموں، اور باشعور افراد کے لئے ایک بہترین کتاب ہے جن سماجوں میں تعمیری عناصر کا فقدان ہے. اس کتاب کا مطالعہ قاری کو یہ سکھاتا ہے کہ وہ اپنے ذات کے خول سے نکل کر اجتماعی سوچ کو پروان چڑھائے اور اپنی کمزوریوں کا ملبہ کسی اور پر ڈالنے کے بجائے انہیں تلاش کرکے جدوجہد کی راہ پر گامزن ہو۔

Baloch Students Action Committee is a Student political organization that aims to work for the betterment of Education in Balochistan and politicizing the youth