بلوچ تاریخ کی قدیم شخصیات
ظہیر بلوچ
زیر نظر کتاب بلوچ تاریخ دان پروفیسر فاروق بلوچ کی تخلیق ہے. اس کتاب کے 248 صفحات ہیں. یہ کتاب 2021 میں فکشن ہاؤس سے شائع ہوئی۔
کتاب کے ابتداء میں پیش لفظ تحریر کیا گیا ہے جو فاروق بلوچ نے لکھی ہے. حروف آغاز صفحہ نمبر 7 سے 12 تک ہے. اس کتاب کے کل تین باب ہے. باب اؤل صفحہ نمبر 13 سے 38 تک ہے جس میں بلوچ قوم کا وطن کے نام سے عنوان تحریر کیا گیا ہے. کتاب کے دوسرے باب میں بلوچ تاریخ کی قدیم شخصیات کا ذکر ہے جو صفحہ نمبر 39 سے 228 تک ہے. باب سوئم میں ماضی پر ایک نظر ڈالی گئی ہے جو صفحہ نمبر 229 تا 244 پر موجود ہے. جبکہ آخر میں کتاب کے حوالوں کا ذکر موجود ہے جو صفحہ 245 سے 248 تک ہے۔
باب اؤل بلوچ قوم کا وطن میں مصنف بلوچ قبائل کو اس دور کے ایشیائی اقوام میں سب سے زیادہ زمینوں کے مالک اور دیگر اقوام کی نسبت قومی رقبے میں بہت زیادہ قرار دیتے ہیں. اس وقت بھی بلوچ قوم کی اندر مزاحمت فطرت کا حصہ تھی جب ان پر کوئی قابض حملہ آور ہوتا تو انہوں نے ظالموں کو کبھی اپنی سرزمین پر چین اور سکون سے رہنے نہیں دیا۔
بلوچ قبائل ایران میں عظیم الشان سلطنتوں کا اہم کردار تھے جب ہخامنشی سلطنت کا دور تھا، اس سلطنت کی بیس صوبوں میں کئی صوبے ایسے تھے جہاں کی کثیر آبادی بلوچ قبائل پر مشتمل تھی۔
صفحہ نمبر 18 اور 19 میں ان صوبوں کا ذکر ہے جہاں بلوچ قبائل کثیر تعداد میں آباد تھے اور ان ٹیکس کا ذکر ہے جو صوبوں نے ادا کئے ہیں۔
بلوچ قبائل شمالی ایران کے پہاڑی سلسلے میں کثیر تعداد میں آباد تھے اور سلسلہ البرز کی پرپیچ وادیوں میں رہتے تھے. مرزا مقبول بیگ بدخشانی انہیں کرد قرار دیتا ہے۔
صفحہ نمبر 26 میں رقمطراز ہے. صوبہ کرمان میں ایک پہاڑی قوم بسی ہوئی تھی جو پاریز (دراصل یہ کوہ باریزی کے کرد باشندے تھے جو اسی نام سے موسوم تھے. ابن خلدون نے بھی ان قبائل کا تذکرہ کیا ہے وہ انہیں الباریزی لکھتا ہے.) کے نام سے موسوم تھی. ان لوگوں پر نوشیروان نے فتح پائی تو انہیں مختلف مقامات پر منتقل کرکے گھروں کو آباد کردیا۔
آرین قوم خود کو معزز اور برتر خیال کرتے تھے اس لئے خود کو بلوچ
سے ممیز کرنے کے لئے انہیں کوچ و بلوچ یعنی پہاڑی اور صحرائی باشندوں کا لقب دیتے تھے۔
فاروق بلوچ کہتے ہیں کہ اسلام کی آمد سے قبل وہ قبائل جنہیں بلوچ تاریخ میں بلوچ، بلوس، بلوص،بلفچ،بال، کوچ و بلوچ، کفچ و بلفچ،قفص و بلوس،قفس و بلوص جیسے الفاظ اور ناموں سے مورخین نے اپنی کتابوں میں تحریر کیا ہے یا پھر انہیں مختلف قبائلی ناموں سے ان کتب میں جگہ دی گئی ہے. وہ قبائل ایک وسیع و عریض خطہ زمین پر آباد تھے جنہیں حملہ آور آرین نے ان کے جغرافیائی خطے کے خدوخال کی مناسبت سے کوچ و بلوچ کے نام سے موسوم کیا. مزید کہتے ہیں کہ اسلام کی آمد سے قبل بلوچ قوم کے جو جغرافیائی حدود تھے. ان کے مطابق ان حدود میں شمالی اور شمالی مغربی ایران کا پہاڑی علاقہ تا حدود ایشیا کوچک، مشرقی ایران کا تمام صحرائی علاقہ، مکران کا تمام تر علاقہ بمعہ ساحلوں کے، وسطی بلوچستان کا علاقہ جو براہوئی اور دہوار قبائل کی قدیم آماجگاہ تھی، علاقہ سیستان جہاں سے بڑی تعداد میں فوجیں ایران پہنچتی تھی اور جنوبی خراسان کا علاقہ ان قبائل کے قدیم جغرافیائی حدود میں شامل تھے۔
(صفحہ نمبر 35)
بلوچ ایک بہادر اور اس سرزمین پر آباد قوم تھی جس نے نہ صرف کئی اقوام کو شکست دیکر علاقے آباد کئے بلکہ ہر دور میں اغیار کے حملوں کے خلاف اپنے وطن کا دفاع کیا۔
کتاب کے دوسرے باب میں بلوچستان کی چند قدیم شخصیات کا ذکر ہے. یہ وہ شخصیات ہیں جن کے مطالعہ سے قاری اس وقت کے حالات و واقعات سے جانکاری لیتا ہے اور ان کی بہادری اور شجاعت کے کارناموں سے واقفیت رکھتا ہے.
ان شخصیات میں کاوہ آہن گر، بہرام چوبیں، تابال کرمانی، ابراد مید، حمزہ سیستانی، میر علی الزنگی الکلوہی، باکردی و ابو علی کردی، حسنویہ البرزیکانی کردی، ابو عبداللہ مری، ابو عبداللہ بریدی، ملک سالار کرد و ملک میران شاہ کرد، شہہ بلا نوش بلیدی، حمل جئیند، میر دوداخان و میر سھراب خان ہوت، بالاچ حسن گورگیج، میر بہرام تالپر، میر بجار تالپر، میر عبداللہ تالپر، سردار نجف علی خان کورائی، جرنیل گوشو لوڑی، قادر مکرانی، میر بلوچ خان نوشیروانی، نواب گوہر خان زرکزئی، نواب خیر بخش مری اؤل و میر شربت خان بجارانی، سردار بجار خان ڈومبکی، سرفروش لال خان مری و میر دودا خان مری، نواب خان محمد زرکزئی، نورا مینگل، میر مصری خان مزارئی کھیتران،، میر محمد علی خان نوشیروانی، میر خدائیداد خان بجارانی مری، میر غلام حسین مسوری بگٹی، میر علی دوست سناڑی،، میر جئیند خان، میر خلیل خان، میر جمعہ خان، میر شاھسوار خان و گل بی بی، میر رحیم خان رخشانی بادینی،، سردار بہرام خان باران زئی، سردار دوست محمد خان باران زئی شامل ہے۔
انسانی تاریخ اور ایرانی تاریخ کا پہلا منظم اور کامیاب عوامی بغاوت کو منظم انداز میں آگے بڑھانا ہو یا انگریزوں کے خلاف جدوجہد آزادی کی شمعوں کو روشن کرنا ہو بلوچ قوم کا یہ کردار ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور ان کرداروں کو فاروق بلوچ نے مختصر پیش کرکے بلوچ قوم کو ان ہیروز سے آشنائی کرائی جن کے بارے میں بلوچ عوام یا تو نہیں جانتی یا بہت کم جانتی ہے۔
خطے کی سیاست میں اہم کردار ادا کرنے والے یہ شخصیات جن کے بغیر کسی حکومت کو قائم کرنا اور اسے برقرار رکھنا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن تھا. جس قوم کے فرزندوں نے منگولوں اور تاتاریوں کے سامنے سر جھکانے کے بجائے انہیں لوہے کا جواب لوہے سے دے کر بلوچ قوم کی بقاء کو محفوظ بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
حمل جئیند جیسے بلوچ فرزند جنہوں نے نہ صرف پرتگیزوں کے خلاف جنگ کرکے تاریخ رقم کی بلکہ بلوچ زبان و ادب کو زندھ رکھنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
پیار، محبت، وفاداری، قومی عزت و ناموس کی داستان رقم کرنے والا لاثانی کردار بالاچ حسن گورگیج جس کی قربانی اور شاعری نے نہ صرف بلوچ زبان و ادب بلکہ بلوچ سماج کی نفسیاتی پہلوؤں کو سمجھنے کے لیے بھی اہمیت کا حامل ہے۔
سندھ دھرتی جو بلوچ قوم کے لیے کبھی اجنبی نہیں تھا. اس سرزمین سے بلوچوں کی محبت، وفاداری اور عہد پرستی کی ایک طویل داستان ہے اور اس داستان کو رقم کرنے والے میر بہرام تالپر، میر بجار تالپر، اور میر عبداللہ تالپر ہیں. مصنف کہتے ہیں کہ جب بھی وفاداری، تدبر، شجاعت اور جانثاری کی تاریخ لکھی جائے گی تو اس خاندان کی قربانیوں اور تاریخ کو اس میں اہم مقام دیا جائے گا۔
صفحہ 148
کیچ مکران کا باشندہ قادو مکرانی جس نے انگریزوں کے خلاف مسلح جدوجہد کی اور کراچی سے ہوتے ہوئے انڈیا کاٹھیاواڑ کا رخ کیا اور وہاں بھی انگریزوں کے خلاف مسلح جنگ شروع کی۔
جنگ گوک پروش کا اہم کردار بلوچ خان نوشیروانی، نواب گوہر خان زرکزئی، نواب خیر بخش مری اؤل،، میر شربت خان بجارانی بھی اس کتاب کا حصہ ہیں۔
نواب خان محمد ذرکزئی اور نورا مینگل کی جدوجہد، شہادت اور انگریزوں کی سازش عیاری بلوچ قوم کے لئے ایک سبق ہے. انگریز سرکار نے اپنے سازشوں اور عیارانہ پالیسیوں کے ذریعے بلوچ قوم کو بلوچ کے سامنے لاکھڑا کردیا. کس طرح نوروز خان نے نواب خان محمد ذرکزئی کو شہید کرکے بلوچ قومی تحریک کے پیٹھ پر چھرا گھونپا. مصنف کہتے ہیں کہ نواب خان محمد کی جنگ دراصل بلوچستان کی آزادی کے لئے لڑی جانے والی سب سے بڑی اور منظم جنگ تھی جو انگریزی طاقت سے نہیں بلکہ مکاری اور غداری سے کچلی گئی۔
صفحہ 191
اسی طرح صفحہ نمبر 196 میں رقمطراز ہے کہ اگر نورا مینگل انگریزوں کے ہتھے نہ چڑھتا تو شاید آج کے حالات اور آج کی تاریخ مختلف ہوتی۔
برطانوی عہد میں تحریک آزادی بلوچستان کے اہم کردار میر مصری خان جو انگریزی تسلط کے خلاف آخری دم تک جدوجہد کرتے رہے۔
کتاب کے باب سوئم میں کتاب کا مختصر خلاصہ پیش کیا گیا ہے. جس کے مطابق بلوچ قوم کی سرزمین ساڑھے تین ہزار سالوں سے اغیار کے حملوں سے متاثر ہوا ہے. لیکن بلوچ قوم نے اپنی بہادری سے ہر قبضہ گیر کا مقابلہ کیا، بلوچوں پر ہر دور میں جنگ مسلط کی گئی. مصنف کہتے ہیں کہ بلوچ علاقوں میں مداخلت کرنے والے کسی بھی فاتح کے گلے میں پھولوں کے ہار نہیں ڈالے گئے بلکہ بلوچوں نے اپنے دفاع کے لیے طاقتور ترین اقوام سے بھی ٹکر لینے میں ہچکچاہٹ یا جھجک محسوس نہیں کی۔
صفحہ نمبر 237
بلوچ قوم نے بلوچستان اور بلوچستان سے باہر اپنی حاکمیت قائم کی. اس خطے کے بڑی قومیتوں میں بلوچوں کا شمار ہوتا ہے. بلوچ قوم نے نہ صرف عسکری میدان میں بلکہ سیاسی میدان میں بھی اپنا لوہا منوایا. بلوچوں کے دم خم سے ایشیاء کی سیاست قائم تھی. مصنف رقمطراز ہے کہ اگر ایران کے کسی شہنشاہ اور حکمران کو سیستان، مازندران، ایلان،گیلان، کرمان، البرز اور زاگروش کے بلوچوں کی حمایت حاصل نہ ہوتی تو وہ کبھی بھی تخت و تاج کا مالک نہ بن پاتا۔
235
مذید لکھتے ہیں کہ اگر کوئی بھی حاکم سرکشی کرتا یا اسکی حمایت سے بلوچ قبائل دست کش ہوجاتے تو اس کے لیے مذید چند دن تک حکمران رہنا بھی مشکل ہی نہیں ناممکن ہوجاتا۔
صفحہ نمبر 236
فاروق بلوچ تیسرے باب میں ماضی کے جھروکوں سے یہ راز بھی آشکار کرتے ہیں کہ دنیا کی کسی بھی طاقت نے بلوچ کو شکست اور ہزیمت سے دوچار نہیں کیا بلکہ وہ طاقت بلوچ کی اپنی ہی تھی جس کی تلوار کے دھار سے اس کا بھائی زخمی یا ہلاک ہوا. ہر حملہ آور نے بلوچ کے مقابلے میں بلوچ کو کھڑا کرکے نا اتفاقی کی بنیاد رکھی۔
فاروق بلوچ کہتے ہیں کہ جب بلوچوں نے یکجہتی، اتحاد اور تنظیم قائم کی تو ان کو وسیع و عریض خطہ زمین پر حاکمیت اور اختیارات حاصل ہوئے اور طاقت ور ترین اقوام بھی ان کے سامنے سرنگوں ہوئے، مگر جب بلوچوں نے آپس میں نااتفاقی کو اپنا شیوا بنایا اور انفرادیت پسندی ان پر غالب آگئی تو وہ کمزوروں کے سامنے بھی مزاحمت نہ کرسکے۔
کتاب کے صفحہ نمبر 245 سے لیکر 248 تک کتابوں کے حوالے دیئے گئے ہیں۔
آخری کلمات.
کتاب بلوچ تاریخ کی قدیم شخصیات تاریخ کے پروفیسر اور طالب علم کی تخلیقی کاوش ہے جو ایک بہترین کتاب ہے. خاص کر ان طبقہ فکر کے لئے ایک اہم کتاب ہے جو بلوچ سیاست اور بلوچ قومی تاریخ سے واقفیت رکھنا چاہتے ہیں۔
میری نظر میں یہ کتاب بلوچ سیاسی کارکنان کے لیے بھی ایک اہم تحفہ ہے جو ماضی کی ناکامیوں سے سیکھنا چاہتے ہیں. کیونکہ آج بھی بلوچ قوم میں جعفر و صادق جیسے کردار موجود ہونگے جو بلوچ قوم کے لبادے میں بلوچ قوم کو نقصان سے دو چار کررہے ہیں۔
ان عظیم شخصیات کو فاروق بلوچ نے ماضی کے صفحات سے نکال کر بلوچ طالب علموں اور دیگر طبقہ فکر کے لوگوں کے سامنے ہیرو کے طورپر پیش کیا ہے. یہ کتاب نہ صرف بلوچ طالب علموں کے لیے مدد گار ثابت ہوگی بلکہ یہ کتاب فاروق بلوچ کی تحقیقی کارناموں کا ایک اہم ثبوت ہے۔
میری ناقص عقل کے مطابق تاریخ کے طالب علم ہونے کی حیثیت سے فاروق بلوچ کی موضوع پر گرفت خاصی مضبوط ہے، مصنف نے علمی انداز اپنا کر اس کتاب کو چار چاند لگادئیے ہیں. تاریخ کے موضوعات اور قدیم شخصیات پر تفصیل سے بھی لکھا جاسکتا ہے. امید ہے کہ فاروق بلوچ اس موضوع پر مذید قلم آرائی کرکے تاریخ سے نا واقف طالب علموں کو بلوچ قومی تاریخ سے مستفید ہونے میں مزید اہم کردار ادا کرتے رہینگے۔

Baloch Students Action Committee is a Student political organization that aims to work for the betterment of Education in Balochistan and politicizing the youth