کتاب تشخص اور تشدد
تبصرہ: ظہیر بلوچ
کتاب تشخص اور تشدد ماہر معاشیات اور نوبل انعام یافتہ امرتیا سین کی لکھی گئی کتاب ہے۔ اس کتاب کا ترجمہ مقبول الہی نے کرکے مشعل بکس لاہور سے شائع کیا۔ 190 صفحات پرمشتمل اس کتاب میں کل 9 باب ہے جن پر مصنفہ اپنے دلائل کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ دنیا سیاست کی رسہ کشی مذہبی اور ثقافتی تفرقات کا لازمی نتیجہ ہے اور اس رسہ کشی کی سیاست میں تشدد کا عنصر نمایاں ہے جس کی اہم وجہ یکتا تشخص پر اصرار ہے اگر دنیا ثقافتی یکتائیت پر اصرار کرنے کے بجائے دوسرے ثقافتوں کا احترام کریں تو دنیا کے جھگڑے ختم ہوجایئں گے۔
تشخص فخر و مسرت اور قوت و اعتماد کا ذریعہ ہے اور تشخص کا احساس ہی دوسروں کے ساتھ تعلقات کی مضبوطی اور گرمجوشی کے لئے ناگزیر ہےجبکہ مصنف تشخص کو قتل کا ذریعہ اور دوسرے گروپوں سے دوری اور اختلافات کا ذریعہ بھی قرار دیتا ہے۔
لیکن میرے خیال میں تشخص اس وقت قتل کا ذریعہ بن سکتا ہے جب کوئی قوم انتہا پسندی کی جانب راغب ہو اور دوسرے قوم کی تشخص کو روند کر اسے کمتر ثابت کرنے کی کوشش کریں تو اسے صورت ہی تشخص تشدد کی صورت اختیار کرلیتا ہے. اسکے علاوہ کوئی ایسی وجہ نہیں کہ انسانی تشخص اسے تشدد کی جانب راغب کریں اگر بات عالمی سیاست کی کریں تو سیاست قومی مفادات کے حصول کا ذریعہ ہے اور عالمی سیاست کی رسہ کشی اصل میں طاقت اور قومی مفادات کا حصول ہے اور مذہبی اور ثقافتی تفرقات دراصل قومی مفادات کے حصول کا ذریعہ ہے جنہیں استعمال میں لاکر دنیا کو جنگ کی جانب دھکیلا گیا ہے۔
مصنفہ کہتی ہے کہ تشخص کا انتخاب نہیں کیا جاتا اسکا اثر ہماری سیاسی اور سماجی استدلال کی قوت اور وسعت کو کمزور کردیتی ہے جبکہ تشخص کو مقدر کا فریب قرار دیتی ہے.
باب نمبر دو صفحہ نمبر پینتیس میں مصنف کہتی ہے کہ کوئی حقیقی انسان پیدائش، نسبت یا تعلقات کے حوالے سے بہت سے گروپوں سے تعلق رکھتا ہے۔
صفحہ نمبر پینتیس میں مذید کہتی ہے کہ یکتا تشخص فرقہ پرست انقلابیوں کا ایک ہتھیار بھی ہے یہ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ لوگ ایسے تمام دوسرے رشتوں کو نظر انداز کریں جو انکی مخصوص قومیت کے ساتھ انکی وفاداری کو معتدل بناسکتے ہیں. اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مصنف فرقہ پرستی کو قومیت کے سانچے میں ڈال کر قومی تشخص کو تشدد کا ذریعہ گردانے کی کوشش کرکے اپنے دلائل کو صیح ثابت کرنے کی کوشش کررہی ہے جو دراصل ان کی سوشلزم اور لبرل ازم سے تعلق کو واضح کرتی ہےاور ان کا تعلق ایسے لوگوں سے ظاہر کرتا ہے جو قوم پرستی کو تشدد کے ذریعے کے طور پر دیکھتے ہیں۔
باب نمبر تین کے صفحہ نمبر تریپن میں مصنفہ سیموئل ہینگٹین کی کتاب تہذیبوں کا تصادم کا حوالہ دیکر اپنے دلائل کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے جس میں مغربی اور اسلامی تہذیبوں کے درمیان تصادم کی طرف اشارہ دیا گیا ہے حالانکہ سیموئل ہینگٹین کی کتاب اسوقت لکھی گئی ہے جب دنیا بائی پولر دنیا سے نکل کر یونی پولر میں داخل ہوچکی تھی اور امریکہ بحیثیت سپر پاور اپنے نیو ورلڈ آرڈر کی تکمیل کے لئے مشرقی وسطی میں اپنے پنجے گاڑھنے کی کوششوں میں مصروف عمل تھی اور یہ کتاب اس تصادم کی طرف اشارہ کررہی تھی کہ اسلامی انتہا پسندی اس کی تکمیل میں رکاوٹ ہے اور امریکہ کا بدترین دشمن اسلامی تہذیب ہے یہ کتاب ایک سیاسی مقصد کے لئے لکھی گئی تھی اور اس کہانی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے میں امریکی ریاست کا کردار تھا اور تہذیبوں کا تصادم دراصل امریکی مقاصد کے حصول کا ذریعہ تھی.
مصنفہ صفحہ نمبر اٹھارہ میں رقمطراز ہے کہ تشدد کو یکتا اور جنگجویانہ تشخصات کو سادہ لوح عوام پر لاگو کرکے بھڑکایا جاتا ہے جس کی پشتی بانی دہشت گردی کے ماہر فنکار کرتےہیں. اس سے ثابت ہوتا ہے کہ تہذیبوں کا تصادم نامی کتاب امریکی کی افغانستان میں جنگ کے شروع کرنے کے لئے عوامی ذہنیت کو تبدیل کرنے کے لئے لکھا گیا ہے اور اس میں صرف سیاسی و قومی مفاد عامہ کو مد نظر رکھ کر ان پالیسیوں کو مرتب کیا گیا ہے.
صفحہ نمبر 118 میں کہتی ہے کہ ثقافتی مقدر کا فریب نہ صرف گمراہ کن ہے بلکہ یہ معنی خیز انداز میں کمزور کرنے والا بھی ہوسکتا ہے کیونکہ یہ ان لوگوں میں جنہیں نا پسندیدہ مقام دیا جاتا ہے، تقدیر کے جبر اور لاتعلقی کا احساس پیدا کرتا ہے.
ثقافت کو مقدر کا فریب قرار دینا دراصل مصنفہ کا اپنا نقطہ نظر ہے کیونکہ اگر مصنفہ کا اشارہ قومیت کی طرف ہے کہ کسی قوم سے تعلق رکھنا مقدر کا فریب ہے تو انسان اس دنیا میں مختلف قوموں کی صورت میں رہتے ہیں ان کی زبان، ثقافت ایک دوسرے سے مختلف ہے، اپنے زبان، ثقافت، روایات کی وجہ سے وہ الگ ہے لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ دوسرے قوموں سے لاتعلقی کا احساس پیدا ہوسکتا ہے اگر کوئی بھی قوم دوسرے قوموں کی زبان اور ثقافت کا احترام کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ نزاع کی صورت کا جنم ہو.
مصنفہ کہتی ہے کہ انسانوں کو کس نظر سے دیکھا جائے کیا ان کی قسم بندی قومیت کی بنیاد پر ہو جس میں وہ اتفاق سے پیدا ہوگئے تھے. موروثی روایات، موروثی مذہب کے مفہوم میں کی جانی چاہیئے. اور اس غیر منتخب شدہ تشخص کو دوسرے تمام وابستگیوں جن میں سیاسیات، پیشہ، طبقہ، صنف، زبان، ادب، سماجی مصروفیات، اور دوسرے بہت سے تعلقات اور ترجیحات رکھتے ہیں جن کا انتخاب وہ خود کرتے ہیں.
واقعی انتخاب کی ہوئی تعلقات کی انسانی زندگی میں اہمیت اپنی جگہ پر ہے لیکن قومیت کسی انسان کی پہچان ہے جب انسان کی پہچان ختم ہوتی ہے تو اسکے دیگر تعلقات کسی کام کے نہیں ہوتے جبکہ زبان اور ادب کسی قوم کی بنیاد کے اہم اجزاء ہے ان کو قومیت سے الگ ظاہر کرنا مصنفہ کی غلطی ہے. اس بات کا جواب مصنفہ خود دیتی ہے کہ بنگلہ دیش کی پاکستان سے علیحدگی کی وجہ زبان اور ادب کی وجہ سے ہوئی نہ کہ مذہب کی وجہ سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ زبان اور ادب قومیت کی بنیاد ہے.
اس کتاب کے کچھ ایسے نکات جن پر مجھے اختلاف ہے جبکہ اب کچھ ایسے نکات پر اپنا تجزیہ پیش کرو گا جن سے مجھے اتفاق ہے.
تشخص اور تشدد میں مصنفہ ان عوامل کو اپنے دلائل کے ذریعے ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ معاشی اور سیاسی اختلاف کو مذہبی ثقافت میں ایک ذیلی موضوع کے طور پر فٹ کیا جاتا ہے اور یہی لوگ ہندوستان کو ہندو تہذیب کے ایک چھوٹے خانے مین ڈال کر تشدد کی راہیں ہموار کرلیتی ہے اسی طرح غیر مطمئن مسلمان انقلاب پسند اپنی مذہبی کامیابیوں پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں اور دیگر میدانوں میں عظیم کامیابیوں پر خاموش ہے.
یہ بات حقیقت ہے کہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والا اپنے مذہب سے خارج ہوئے بغیر سیاسی اخلاقی اور سماجی معاملات پر فیصلہ کرنے میں کئی مختلف موقعوں میں سے کوئی بھی موقف اختیار کرسکتے ہیں.
مصنف بنگال کے قحط کا حوالہ دیتے ہوئے کہتا ہے کہ انگریزوں نے اس قحط کی وجہ وہاں کے لوگوں کے خرگوشوں کی طرح بچے پیدا کرنے کے رحجان کی وجہ سے آیا اور چرچل کے بقول کہ ہندوستان پر حکومت کرنا اس وجہ سے اتنا مشکل ہے کہ ہندوستانی جرمنوں کے بعد دنیا میں اُجڑ ترین لوگ تھے.
یہ وہ ثقافتی نظریات ہے جن سے دوسرے قوموں کو بد تہذیب اور کمتر ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور یہ نو آبادیاتی دور کے دوران تمام سامراجی ممالک نے استعمال کی تھی لیکن آج پسماندہ ملکوں میں پس آبادیات ذرائع کو استعمال میں لاکر عوام کو زیر کیا جاتا ہے.
اسی طرح مصنفہ مشرق اور مغرب کے تصادم کی طرف اشارہ کرتے ہوئی کہتی ہے کہ جمہوریت کو اکثر اوقات مغربی تصور کے طور پر دیکھا جاتا ہے لیکن کوئی چیز کلیتہ مغربی نہیں ہے لیکن پھر بھی ان پر مغربیت کا لیبل لگادینا دوسرے معاشرے میں ان کے خلاف منفی رویوں کو جنم دیں گا.
جاپان کا حوالہ دیتے ہوئے مصنفہ کہتی ہے کہ جاپان کا سترہ شقوں پر مشتمل آئین 604 عیسوی میں مدون کیا گیا جو ایک جمہوری آئین ہے جس کا مطلب ہے کہ میگنا کارٹا پر دستخط کئے جانے سے چھ سو سال قبل
صفحہ نمبر 65
ایشیائی اقدار کا دعوٰی دراصل مغرب سے مرعوب ہونے کی شکل ہے.
میری نظر میں اس کتاب کے کچھ نکات پراتفاق کیا جاسکتا ہے جبکہ بیشتر نکات پر اتفاق نہیں کیا جاسکتا کیونکہ تشخص کبھی تشدد کو جنم نہین دیتا اگر کوئی قوم دوسرے قوم کی ثقافت کا احترام کریں اسکے زبان ادب کلچر کو اہمیت دیں تو کوئی وجہ نہیں کہ تشخص تشدد کی جانب گامزن ہو
تشدد سامراج کا پیدا کردہ حربہ ہے جس نے صنعتی انقلاب اور اس سے قبل دوسرے اقوام کا استحصال کیا اور انکی زبان کلچراور تاریخ کو مسخ کیا جسکے ردعمل میں جنگی صورتحال نے جنم لیا جبکہ موجودہ گلوبلائزیشن کے دور میں تعلقات قومی مفادات کو مد نظر رکھ کر کئے جاتے ہین اور اپنے قومی مفادات کے حصول کے لئے مذیب اور قومیت کے نام پر دہشت گردی کو بھڑکایا جاتا ہے اور یہ صرف سامراجی مقاصد کا ذریعہ ہے.
اس کتاب میں کئی جگہ پر مذہب کو قومیت کے خانے میں ڈال دیا گیا ہے حالانکہ کسی قوم میں ایک سے زائد زبانیں اور مذاہب ہوتے ہیں اسی بناء پر قوم بنیادی درجہ رکھتی ہے جبکہ مذہب ثانوی درجے کی حیثیت رکھتی ہے.
ظاہر ہوتا ہے کہ مصنفہ مغربی کلچر اور ان کے گلوبلائزیشن کے عمل سے متاثر ہے اور مصنفہ کا تعلق سوشلسٹوں کے اس قبیل سے ہے جو قوم دوستی اور مذہب کو انتہا پسندی کی نظر سے دیکھتی ہے۔

Baloch Students Action Committee is a Student political organization that aims to work for the betterment of Education in Balochistan and politicizing the youth